وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے پاکستان قومی اسمبلی کا اجلاس تحریک پر بحث کیے بغیر ہی تین اپریل تک ملتوی کردیا گیا ہے۔ اسمبلی کا اجلاس آج ایک گھنٹہ کی تاخیر سے نائب اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت میں شروع ہوا۔ تلاوت قرآن کریم، نعت رسولﷺ اور قومی ترانے کے بعد اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔ جس کے بعد پارلیمانی امور کے مشیر بابر اعوان نے آج شام کو قومی اسمبلی ہال کو پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے لیے استعمال کرنے کی تحریک پیش کی لیکن اپوزیشن نے تحریک کی مخالفت کی اور رائے شماری کے بعد تحریک مسترد کر دی گئی۔ اس کے بعد وقفہ سوالات میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کے رکن پارلیمنٹ نے اسپیکر سے تحریک عدم اعتماد پر فوری ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ جس پر نائب اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کا کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی وقفہ سوالات کے دوران سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے، اس لیے قومی اسمبلی کا اجلاس 3 اپریل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کا یہ اجلاس وزیراعظم عمران خان کے خلاف مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے ہوگا۔ حکمران اتحاد سے دو اہم اتحادیوں کی علیحدگی کے بعد عمران حکومت اکثریت سے تقریبا دور ہو چکی ہے۔ قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ نے اجلاس کے لیے 24 نکاتی ایجنڈا بھی جاری کیا جس میں تحریک عدم اعتماد پر بحث بھی شامل ہے۔ شیڈول کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف 28 مارچ کو پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر بحث کا آغاز کریں گے۔ 28 مارچ کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے قرارداد پر بحث کے لیے اپوزیشن کے 161 اراکین کی حمایت کو منظور کر لیا گیا تھا، تاہم نائب اسپیکر قاسم سوری نے قومی اسمبلی کا اجلاس 31 مارچ شام 4 بجے تک ملتوی کر دیا تھا۔
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 3 اپریل کو متوقع ہے جس سے قبل دونوں فریق پارلیمنٹ میں اس پر بحث کریں گے۔عمران حکومت کے دو اہم اتحادیوں - متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) متحدہ اپوزیشن میں شامل ہونے کے بعد اپوزیشن کی پوزیشن مضبوط ہو گئی ہے۔ تاہم، عمران خان پر مستعفی ہونے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کے درمیان، ان کے وزراء کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم آخری اوور کی آخری گیند تک لڑائی جاری رکھیں گے۔ تاہم جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن کو 175 ارکان پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور وزیراعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 342 ہے، جس کی اکثریت 172 ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت میں اتحاد 179 ارکان کی حمایت سے قائم کیا گیا تھا، جس میں عمران خان کی پی ٹی آئی کے 155 ارکان تھے، اور چار بڑے اتحادی متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان ( ایم کیو ایم پی)، پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل-ق)، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے بالترتیب سات، پانچ، پانچ اور تین اراکین ہیں۔ عمران خان کی صورتحال اس لیے نازک ہے کہ چار میں سے تین اتحادیوں یعنی ایم کیو ایم پی، پی ایم ایل ق اور بی اے پی نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسی کے مطابق ووٹ دیں گے۔ اس کے علاوہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے 40 سے زائد ارکان اسمبلی 25 مارچ کو ہونے والے عدم اعتماد کے قومی اسمبلی کے اجلاس کے روز ہی غائب ہو گئے۔