حیدرآباد: بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار صرف انسانی بحران میں اضافہ کرتے ہیں یہ ہم آہنگی کو فروغ نہیں دے سکتے۔ بے گناہوں کے خون میں لت پت مٹی پر امن کا تصور ہی مرجھا جاتا ہے۔ مغربی ایشیا میں تنازعات کی موجودہ لہر اس تلخ حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے کے جواب میں، اسرائیل غزہ کو مسلسل تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ محض 360 مربع کلومیٹر کے اندر بسے ہوئے غزہ شہر کی آبادی 2.3 ملین ہے۔ اسرائیلی فوج لاتعداد بے، جو بچوں اور خواتین کو بے حساب اذیتیں دے رہی ہے۔ اسرائیل دعویٰ کر رہا ہے کہ ان کا ارادہ غزہ کے لوگوں کے خلاف جنگ کرنا نہیں ہے۔ وہیں، شمالی غزہ میں گیارہ ملین فلسطینی آنے والے خطرے سے بچنے کے لیے 24 گھنٹے کے اندر اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس تباہ کن تصادم کے سائے میں عام شہریوں کی حالت زار پہلے سے زیادہ نازک ہوتی جا رہی ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ آٹھ دن پہلے رونما ہونے والے تباہ کن واقعات کا فیوز کس نے روشن کیا، جس کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں؟ بنیامن نتن یاہو،دسمبر 2022 میں اسرائیل میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے اپنی انتخابی جیت کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند دھڑوں کی حمایت حاصل کی، اس طرح اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ فرقہ وارانہ حکومت کا جنم ہوا۔ ان کی کابینہ کی تقرریوں میں کئی نسل پرست افراد شامل ہیں، جو فلسطینی وجود کے خلاف شدید عداوت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حماس اور اسرائیل میں کشیدگی کی اہم وجوہات کیا ہیں؟
ان کی حمایت سے تقویت پا کر، اسرائیلی آباد کاروں نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر بلا روک ٹوک جارحیت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ صرف جون کے مہینے میں فلسطینیوں کے خلاف تقریباً 310 حملے ہوئے، جب کہ اس سال کی پہلی ششماہی مغربی کنارے میں 200 سے زائد فلسطینیوں کی جانوں کے المناک نقصان کا گواہ ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر بینی گینٹز نے بھی تشدد کی ان کارروائیوں کی مذمت کرنے سے گریز نہیں کیا۔ انھوں نے یہودی قوم پرستی کے گمراہ کن تناؤ سے پیدا ہونے والے ان حملوں کو دہشت گردی کے خطرناک مظہر قرار دیا۔ کافی عرصے سے، تشویش میں مبتلا کرنے والی یہ خبریں آرہی تھی کہ نتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی حکومت، فلسطینی آبادی کے ساتھ اپنے ناروا سلوک کے ممکنہ تباہ کن نتائج کے بیج بو رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اب یہ منحوس پیشین گوئیاں سچ ثابت ہوئی ہیں۔ اس کشیدگی میں عام شہریوں کی زندگیاں تصادم کے انتھک دور میں بے دردی سے اجاڑ دی گئی ہیں۔
اسرائیلیوں کے اغوا کی ذمہ دار حماس کی ابتدا تاریخی، سیاسی اور علاقائی عوامل کے ایک پیچیدہ جال سے کی جا سکتی ہے۔ اس تنازعہ کی بنیادی وجوہات ایک ہنگامہ خیز تاریخ میں گہرائی تک پیوست ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی کا الحاق ساڑھے پانچ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل ہوا تھا، جس نے خطے میں ایک طویل جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان علاقائی قبضوں کے جواب میں یاسر عرفات کی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے گوریلا جنگ کی مہم شروع کی۔