نئی دہلی:حال ہی میں نائجر کی فوج نے بغاوت کرتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ بھارت کے سابق سفیر انل تریگنایت نے بھارت اور نائجر کے تعلقات پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ تریگنایت نائجر، لیبیا، اردن اور سویڈن میں بھارتی مشنوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ بغاوت کے بعد نائجر کے صدر محمد بازوم کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس پر تریگنایت نے بھارت اور نائجر کے تعلقات کے بارے میں ایک پر امید نظریہ اپنایا۔
تریگنایت نے کہا کہ 'جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس بغاوت کا ہمارے دوطرفہ تعلقات پر براہ راست اثر نہیں پڑے گا کیونکہ بھارتی امداد اور صلاحیت سازی کی کوششوں کو وہاں بڑے پیمانے پر سراہا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے میں بھارت کے لیے کوئی براہ راست کردار نہیں دیکھتا، لیکن اس میں علاقائی سطح پر اور اقوام متحدہ کی قیادت میں پہل ہونی چاہیے، جن کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
نائجر میں حالیہ بغاوت کے بعد فوجی گروپ نے صدر بازوم کو حراست میں لے لیا۔ اس سے خطے میں سیاسی عدم استحکام کے خدشات بڑھ گئے۔ بدھ کے روز نائجر میں تختہ پلٹ کا اعلان کیا گیا۔ فوجی گروپ نے نئی حکومت کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ مغربی افریقی رہنما اس کے بعد نائجر پر ایک ہنگامی سربراہی اجلاس کے لیے نائیجیریا میں جمع ہوئے، جہاں ملک کے منتخب صدر کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ وہیں فوجی بغاوت کے رہنماؤں نے منتخب صدر کی بحالی کے مطالبات کی مخالفت کی۔