اقوام متحدہ: اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2023 سے 2027 تک کا عرصہ انسانی تاریخ کا گرم ترین دور ہوگا۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کے مطابق بحر الکاہل کو گرم کرنے والے موسمیاتی رجحان ایل نینو اور گرین ہاوس گیسوں کا مشترکہ اثر درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ایل نینو ایسا موسمیاتی رجحان ہے جس کے نتیجے میں بحرالکاہل کے پانی کا بڑا حصہ معمول سے کہیں زیادہ گرم ہوجاتا ہے اور زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ بھی بنتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 66 فیصد امکان ہے کہ دنیا کا درجہ حرارت 1.5 ڈگری کی حد سے تجاوز کرجائے گا۔ اب تک گزشتہ 8 سال انسانی تاریخ کے گرم ترین سال قرار پائے ہیں جن میں 2016 سب سے زیادہ گرم تھا لیکن موسمیاتی تبدیلیوں میں تیزی سے تبدیلی آنے کی وجہ سے درجہ حرارت میں مزید اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ 98 فیصد امکان ہے کہ اگلے پانچ سال انسانی تاریخ کے گرم ترین دن ہوں گے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے بین الحکومتی پینل کے مطابق صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے لانے کے لیے سنہ 2015 میں پیرس معاہدہ ہوا تھا۔ دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے خبردار کیا کہ گرین ہاؤس گیسوں سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ادارے نے عالمی درجہ حرارت کے حوالے سے جو حد سوچی تھی اگر وہ تجاوز کرگئی تو ممکنہ طور پر یہ صورتحال عارضی ہوگی۔
درجہ حرارت تجاوز کرنے کا مطلب دنیا 19ویں صدی کے دوسرے نصف کے مقابلے زیادہ گرم ہوگی۔ دوسری جانب ادارے کی جانب سے ایک اور وارننگ جاری کی گئی کہ آنے والے مہینوں میں ایل نینو موسمیاتی رجحان تشکیل پانے کا امکان ہے جس سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا میں صحت، خوراک، پانی اور ماحول کے انتظام میں مشکلات آسکتی ہیں، اس لیے ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر ایل نینو بننے کے بعد ایک سال میں زمین کے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ریکارڈ کیا جاتا چونکہ یہ بننا شروع ہوچکا ہے اس لیے اس کا سائیکل 2024 میں مکمل ہوگا جس کے بعد زمین کے درجہ حرات میں اضافہ متوقع ہے۔