تل ابیب: گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران اسرائیل کے ایک وزیر کے غزہ میں ایٹمی حملے سے متعلق بیان نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی اوٹزما یہودیت پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اسرائیلی وزیر برائے ثقافتی امور امیچائی الیاہوں نے اتوار کے روز کہا کہ حماس کے زیر اقتدار غزہ کی پٹی پر ایٹم بم گرانا ایک آپشن تھا۔ اسرائیلی وزیر ان کے ریمارکس نے حکمراں اتحاد اور اپوزیشن دونوں کے ارکان کو مشتعل کر دیا اور انہیں حکومت سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔ ہنگامہ آرائی کے بعد وزیر نے اپنے بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئے اسے استعاراتی تبصرہ قرار دیا۔
وہیں دوسری جانب وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس احمقانہ ریمارکس کی وجہ سے اپنے وزیر کو غیر معینہ مدت کے لیے حکومتی اجلاسوں سے معطل کر دیا ہے۔ اسرائیل وزیراعظم کے دفتر نے کہا کہ الیاہو جنگ کے وقت کے فیصلہ سازی میں شامل سیکیورٹی کابینہ کا حصہ نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ اسلامی حماس کے خلاف جنگ کی ہدایت کرنے والی جنگی کابینہ پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ نیتن یاہو نے اس تبصرہ کو حقیقت سے پرے قرار دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اسرائیل اور اسرائیل ڈیفنس فورسز بین الاقوامی قانون کے اعلیٰ ترین معیارات کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے اپنے جاپانی ہم منصب فومیو کشیدا کے ہمراہ اتوار کو ہی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی طرف سے گرائے گئے بموں سے ہونے والا نقصان دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما میں ہونے والے نقصانات سے زیادہ ہے۔ اس کی تصدیق یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس آبزرویٹری کی ایک رپورٹ سے بھی ہوئی۔ اس نے ایکس پلیٹ فارم پر ایک ٹویٹ میں وضاحت کی کہ غزہ پر گرائے گئے بم ہیروشیما کے دھماکے کی طاقت سے 1.5 گنا زیادہ تھے۔