اسرائیل کی اپیل کورٹ نے مجسٹریٹ عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں مقبوضہ مشرقی یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں طویل عرصے سے یہودیوں کی عبادت پر پابندی کی قانونی بنیاد پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ جس نے فلسطینیوں کے غصے کو بھڑکا دیا تھا جبکہ اس دوران امریکا نے اپنے شہریوں کو اس علاقے میں آمد و رفت سے متعلق خبردار کیا تھا۔ Jewish Prayer at Al Aqsa Mosque
اس ہفتے کے اوائل میں، ایک مجسٹریٹ عدالت نے تین یہودیوں کے حق میں فیصلہ سنایا تھا، جن پر پولیس نے اس مقام پر نماز ادا کرنے پر 15 دنوں کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔ اتوار کو پابندی کو ہٹاتے ہوئے، مجسٹریٹ عدالت کے جج زیون صحرائی نے کہا کہ اگرچہ ان کا سائٹ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن تینوں اپیل کنندگان کے طرز عمل سے قومی سلامتی، عوامی تحفظ یا انفرادی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
مجسٹریٹ کے فیصلے کے بعد فلسطینیوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے جبکہ اسرائیل کی جانب سے عہد کیا گیا کہ علاقے کی معاہدہ شدہ حیثیت کو برقرار رکھا جائے گا۔ اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ایک بیان جاری کیا جس میں اتوار کے فیصلے کو تاریخی جمود کے خلاف ایک سنگین حملہ اور بین الاقوامی قانون کے لیے ایک کھلا چیلنج قرار دیا۔