تل ابیب: اسرائیلی حکومت نے فلسطینوں کے خلاف اپنی جارحانہ پالیسی جاری رکھتے ہوئے غیرقانونی بستیوں کی توسیع کو روکنے کے لیے امریکی دباؤ کے باوجود مقبوضہ مغربی کنارے میں ہزاروں عمارتوں کے اجازت نامے منظور کرنے کا منصوبہ پیش کردیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں 4 ہزار 560 ہاؤسنگ یونٹس کی منظوری کے منصوبے اسرائیل کی سپریم پلاننگ کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہیں جو اگلے ہفتے ہونے والی ہے، حالانکہ ان میں سے صرف ایک ہزار 332 یونٹس کو حتمی منظوری کے لیے تیار ہیں، دیگر یونٹس اب بھی ابتدائی منظوری کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے کہا کہ ہم بستیوں کی تعمیر جاری رکھیں گے اور ان بستیوں کی زمین پر اسرائیل کے کنٹرول کو مضبوط کریں گے، خیال رہے کہ بیزلیل سموٹریچ کے پاس دفاعی قلمدان بھی ہے جو انہیں مغربی کنارے کی انتظامیہ میں ایک اہم کردار بناتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بیش تر ممالک 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل کی جانب سے قبضے میں لی گئی زمین پر تعمیر کی گئی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں، اسرائیل-فلسطین تنازع میں ان بستیوں کی موجودگی بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اس فیصلے کے ردعمل میں فلسطینی اتھارٹی (جسے مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود اختیار حاصل ہے) نے کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ پیر کو ہونے والے مشترکہ اقتصادی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے۔ فلسطینی گروپ حماس (جس نے 2007 سے اسرائیل کے فوجیوں اور آباد کاروں کے انخلا کے بعد غزہ پر حکمرانی کی ہے) نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی زمین پر اسرائیل کو قانونی حیثیت حاصل کرنے نہیں دیں گے، ہمارے لوگ ہر طرح سے اس کی مزاحمت کریں گے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سے ہزاروں عمارتوں کے اجازت ناموں کی منظوری کا یہ اقدام گریٹ ہال آف دی پیپل میں فلسطینی صدر محمود عباس کے پرتپاک استقبال کے بعد سامنے آیا، جہاں چینی صدر شی جن پنگ نے فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کا مستقل رکن بنانے کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ فلسطین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کے قیام کو سراہتے ہوئے چینی صدر نے اپنے فلسطینی ہم منصب سے کہا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے چین مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔