حیدرآباد:ابراہیم سمجھوتے کے تحت ایک کے بعد دوسرے مسلم نے ملک اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے بعد عمان قطار میں کھڑا ہے۔ عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات کے دستاویز کو ’معاہدہ ابراہیم‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نام بہت سوچ سمجھ کر دیا گیا ہے۔ دلیل دی جارہی ہے کہ تینوں بڑے ادیان کے ماننے والے یعنی مسلمان، مسیحی اور یہودی تینوں حضرت ابراہیم کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ سعودی عرب بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے ہی والا تھا لیکن آٹھ اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے بیچ چھڑی جنگ نے سعودی عرب کو اپنے قدم پیچھے کھینچنے پر مجبور کر دیا۔ فلسطین اور اس کا حامی ایران معاہدہ ابراہیمی کی سختی سے مخالفت کرتے آئے ہیں۔ فلسطین کا ماننا ہے کہ یہ معاہدہ آزاد فلسطین کے خواب کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اب اس معاہدہ ابراہیم میں ایسا کیا ہے، جس کی حماس پر زور مخالفت کر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس معاہدہ کی آڑ میں اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے پر آباد مسلم آبادی کو ان علاقوں سے خالی کراکر اسے مصر کے سینائی علاقہ یا کسی دوسرے پڑوسی ملک میں بسانا چاہ رہا تھا۔
اسرائیل کی بے چینی:
اسرائیل جس انداز میں ان دنوں غزہ کا محاصرہ کیے ہوئے ہے، غزہ کی کھانے اور پینے اور ایندھن کی سپلائی روکے ہوئے ہے، اس سے غزہ میں تیزی سے نقل مکانی کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ اب جو غزہ میں ڈٹے ہوئے ہیں، ان پر اسرائیل کے فضائی حملے قہر برپا کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی بے چینی اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے چھ دنوں کے دوران غزہ میں حماس کے ٹھکانوں پر چار ہزار ٹن وزنی چھ ہزار بم گرائے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں میں 3600 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر غزہ کی پٹی اور لبنان پر بمباری میں سفید فاسفورس استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ ایک انتہائی آتش گیر کیمیکل ہے جو بعض اوقات فوج کی طرف سے علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ لوگوں کو بری طرح سے جلا بھی سکتا ہے۔ جب اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو یہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے، خاص طور پر اگر اسے بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں گرایا جائے۔
اقوامِ متحدہ کا بیان اسرائیل کی نیت پر شک کرنے کو مجبور کرتا ہے:
اقوام متحدہ کا بیان بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اسرائیل غزہ کو پوری طرح سے خالی کرانے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ غزہ کے شمال میں رہنے والے ہر شخص کو اگلے 24 گھنٹوں میں جنوبی غزہ منتقل ہو جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ تعداد تقریبا 11 لاکھ ہے جو پوری غزہ پٹی کی آبادی کا تقریبا نصف ہے۔ متاثرہ علاقے میں گنجان آبادی والا غزہ شہر بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’اقوام متحدہ کا خیال ہے کہ تباہ کن انسانی نتائج کے بغیر اس طرح کی نقل مکانی کا ہونا ناممکن ہے‘۔ اسرائیل غزہ کی سرحد پر زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے، جس میں فوجی، بھاری توپ خانے اور ٹینک جمع کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ نے شمالی غزہ کے 11 لاکھ افراد کو اگلے 24 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کے کسی بھی حکم کی تصدیق ہونے کی صورت میں اسے منسوخ کرنے کی اسرائیل سے پرزور اپیل کی ہے۔