تہران: مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے خلاف ہونے والے پرتشدد احتجاج کے دوران ایرانی سکیورٹی فورسز کے مبینہ تشد سے نوجوان لڑکی کی ہلاکت پر اس کی والدہ نے خود کشی کرلی۔Protest In Iran
غیر ملکی نشریاتی ادارے 'عرب نیوز' نے میٹرو کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سماجی کارکنوں کے مطابق 16 سالہ یوٹیوبر سرینہ اسمٰعیل زادہ گزشتہ ماہ کاراج میں احتجاج کے دوران لاٹھیوں سے کیے گئے حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ایران کے کرد علاقے سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی کی 16 ستمبر کو ہوئی موت کے بعد سے ایران بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جو 1979 کے انقلاب کے بعد سے اس کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے، ہلاکت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 185 ہو چکی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے میٹرو مطابق مظاہروں کے دوران مرنے والے بچوں کے والدین کو ایرانی حکام کی جانب سے میتیں حوالے کرنے کے سلسلے میں اکثر سخت ضابطوں کے باعث سخت اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 'میٹرو' کے مطابق اہل خانہ نے لڑکی کو 10 روز تک تلاش کرتے رہے جس کے بعد حکام کی جانب سے اس کی لاش لواحقین کے حوالے کی گئی۔سرینہ اسماعیل زادہ کے یوٹیوب چینل میں ان کی بغیر حجاب پہنے، مرد کے ساتھ رقص اور خواتین کے حقوق پر گفتگو سے متعلق ویڈیوز شامل ہیں۔ بیٹی کی لاش کے حصول کی کوشش کے دوران سکیورٹی فورسز نے اس کی ماں کا مذاق اڑایا اور کہا کہ اس کی بیٹی بد کردار اور دہشت گرد تھی۔مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سیرینہ اسمٰعیل زادہ کی شدید تشدد زدہ لاش دیکھنے کے بعد اس کی والدہ نے خود کو پھندا لگا کر خود کشی کرلی۔