نیویارک: اقوام متحدہ کے مطابق، 16 ستمبر کو ہلاک ہونے والی 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد، گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران ایران میں کم از کم 14,000 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سی این این نے رپورٹ کیا کہ ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال پر خصوصی نمائندے جاوید رحمان نے کہا کہ پچھلے چھ ہفتوں کے دوران 14,000 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں انسانی حقوق کے محافظ، طلبا، وکلاء، صحافی اور سول سوسائٹی کے کارکن بھی شامل ہیں۔Iran Anti Hijab Protest
اسلامی جمہوریہ ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد کئی ہفتوں سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ جاوید رحمان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک خطاب میں کہا کہ ملک میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم از کم 277 افراد کی ہلاکت کی بھی اطلاع ملی ہے۔ تاہم، درست اعداد و شمار کی تصدیق ایرانی حکومت سے باہر کسی کے لیے بھی ناممکن ہے۔ رحمان نے جاری مظاہروں کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے 1,000 افراد کے خلاف عوامی ٹرائل کرنے کے ایران کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔ انھوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ کچھ الزامات میں سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار تیزی سے پھیل رہے ملک گیر احتجاج کو ایک قومی بغاوت اور ایرانی حکومت کے قیام کے بعد سے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔لندن سکول آف اکنامکس میں تاریخ کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر روحام الوندی نے سی این این کو بتایا کہ یہ احتجاج ملک میں اصلاحات کے لیے نہیں ہے، یہ اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی بغاوت ہے اور یہ اس سے بالکل مختلف ہے جو ہم نے پہلے دیکھا ہے۔