تہران: مہسا امینی کی پولیس حراست مبینہ قتل کے بعد ہونے والے پرتشدد احتجاج کے سلسلے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے امریکی ہم منصب جو بائیڈن پر مہسا امینی کی ہلاکت پر ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کی پشت پناہی اور افراتفری پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر مظاہرین کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔Iran Protests
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ابراہیم رئیسی نے مرحوم روح اللہ خمینی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’امریکی صدر کے بے بنیاد، افراتفری اور دہشت گردی کے الزامات دوسرے ملک کی تباہی کا سبب بنتے ہیں جو مجھے اسلامی جمہوریہ کے بانی کے الفاظ کی یاد دہانی کراتے ہیں جنہوں نے امریکا کو شیطان قرار دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کے ذریعے دشمن کی سازش کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ 16 ستمبر سے ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کو حجاب ٹھیک سے نہ پہننے پر اخلاقی پولیس نے گرفتار کرلیا تھا، مہسا امینی کی گرفتاری کے 3 دن بعد ان کی موت ہوگئی تھی جس کے بعد سے ملک بھر میں پولیس کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔احتجاج کے دوران پُرتشدد واقعات میں مظاہرین اور سیکیورٹی افسران سمیت درجنوں افراد کی موت بھی واقع ہوئی اور سینکڑوں مظاہرین گرفتار ہوئے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے 14 اکتوبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہم ایران کی بہادر خواتین کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔ امریکی صدر نے کہا تھا کہ ایران میں اتنی بڑی بیداری پر حیران ہوگیا ہوں، یہ ایسی بیداری ہے جس کے بارے میں میں نے نہیں سوچا تھا، اس نے ایران کو ایسا بیدار کردیا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اب زیادہ دیر تک خاموشی طاری رہ سکے گی۔'
یہ بھی پڑھیں: Iran prison fire death ایران کی ایون جیل میں آتشزدگی سے ہلاک ہونے والے قیدیوں کی تعداد آٹھ ہوگئی
16 اکتوبر کو ایران کے وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے جو بائیڈن کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ساتھ مل کر ایران کی آزادی کا دفاع کریں گے۔ 6 اکتوبر کو امریکی صدر نے ایران میں کریک ڈاؤن میں ملوث 7 ایرانی اعلیٰ عہدیداروں پر پابندی عائد کردی تھی۔ گزشتہ ماہ امریکی نے ایران کی اخلاقی پولیس پر بھی سخت پابندیاں عائد کی تھیں۔ ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا کی ہلاکت اور مظاہروں کے بعد ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ نے مغربی ممالک پر ایران کی ثقافت اور تہذیب پر حملے کرنے کا الزام لگایا تھا۔
کُرد خاتون (مہسا امینی) کی ہلاکت کے بعد مظاہروں میں مظاہرین اور سیکیورٹی افسران سمیت درجنوں افراد کی موت ہوئی تھی جبکہ ملک بھر کے اسکولوں میں احتجاج اب بھی جاری ہیں۔ اقوام متحدہ چلڈرن فنڈ (یونیسیف) نے کہا تھا کہ ’ایران میں بچوں اور نوعمر افراد کی گرفتاری، موت اور پُرتشدد واقعات پر شدید تشویش ہے‘۔ایران کے وزیر تعلیم یوسف نورانی نے 16 اکتوبر کو مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسکول کے بچوں کی گرفتاری کی تردید کی تھی۔ (یو این آئی)