نیویارک: امریکا میں پولیس کی گاڑی کی زد میں آکر بھارتی طالب علم کی ہلاکت کے معاملے میں بھارت نے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ بھارت نے امریکہ سے اس ویڈیو کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس میں پولیس افسر طالب علم کو ٹکر مارنے کے بعد فون کال پر ہنستے اور مذاق کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ جو بائیڈن انتظامیہ نے بھارتی حکومت کو اس معاملے میں پولیس افسران کے خلاف جلد تحقیقات اور قانونی کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دراصل ساؤتھ لیک یونین میں نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کی 23 سالہ طالبہ جاہنوی کنڈلا 23 جنوری کو ڈیکسٹر ایونیو نارتھ اور تھامس اسٹریٹ کے قریب چہل قدمی کر رہی تھیں کہ اسی وقت سیئٹل پولیس کی تیز رفتار گاڑی نے جاہنوی کو ٹکر ماردی اور ان کی موت واقع ہوگئی۔
جاہنوی کنڈلا، نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے سیئٹل کیمپس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے زیر تعلیم تھیں، اس المناک واقعے سے پہلے جاہنوی کے سامنے ایک روشن مستقبل تھا۔ لیکن اس کی موت کی ویڈیو میں دکھائے جانے والی امریکی پولیس کی عجیب و غریب بے حسی نے بین الاقوامی سطح پر ہنگامہ برپا کردیا ہے۔
بھارت کا سخت موقف:امریکہ میں بھارتی سفیر ترنجیت سنگھ سندھو نے اس معاملے کو واشنگٹن میں اعلیٰ سطح پر سختی سے اٹھایا۔ انہوں نے ریاست واشنگٹن کے شہر سیٹل میں کنڈلا کے قتل اور پولیس افسر کے انتہائی غیر حساس رویہ پر فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد امریکی حکومت حرکت میں آئی ہے۔ سفارتخانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا، "ہم نے یہ معاملہ سیٹل اور واشنگٹن ریاست کے مقامی حکام کے ساتھ ساتھ واشنگٹن ڈی سی کے سینئر حکام کو بھیجا ہے تاکہ اس افسوسناک معاملے میں ملوث افراد کے خلاف مکمل تحقیقات اور کارروائی کی جا سکے۔ پوسٹ میں کہا گیا، "قونصلیٹ اور سفارت خانہ تمام متعلقہ حکام کے ساتھ اس معاملے کی نگرانی جاری رکھیں گے۔"
قانونی کارروائی کی یقین دہانی: امریکی قانون سازوں اور بھارتی نژاد امریکیوں نے کنڈلا کی موت پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھارتی حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس واقعے کی جلد تحقیقات کرے گی اور قصوروار پولیس افسران کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔ بھارتی نژاد امریکی رکن پارلیمنٹ رو کھنہ نے کہا کہ جہانوی کنڈلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے انڈیا سے یہاں آئی تھی۔ کنڈلا اس وقت ایک تیز رفتار پولیس کار کی زد میں آکر ہلاک ہوگئی جب وہ سڑک عبور کر رہی تھی اور کمانڈر افسر کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی کی محدود قیمت تھی۔ اس پر مجھے اپنے والد کا خیال آیا جو 20 سال کی عمر میں یہاں آئے تھے۔