دوحہ: پاکستانی وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر اقوامِ متحدہ کی قیادت میں افغانستان پر ہونے والی بات چیت میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے دوحہ پہنچ گئیں، یہ مذاکرات طالبان حکام کی غیر موجودگی میں ہو رہے ہیں۔ ڈان میں شائع ہونے والی غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق جنہیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے دو روزہ مذاکرات کے لیے امریکہ، چین اور روس کے سفیر، نیز بڑے یورپی امدادی عطیہ دہندگان اور اہم ہمسایہ ممالک، سمیت تقریباً 25 ممالک اور گروپوں کے نمائندوں کو مدعو کیا ہے۔ تاہم اجلاس میں افغانستان کے موجودہ طالبان حکمرانوں کو مدعو نہیں کیا گیا، جس میں اس بات پر توجہ مرکوز کی جائے گی کہ ان سے کیسے تعلق بنایا جائے اور ان پر کام کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔
وزیر مملکت، افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا نقطہ نظر پیش کریں گی اور بین الاقوامی اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ آگے بڑھنے کے راستے کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے پر کام کریں گی۔اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم، خود مختار، خوشحال اور منسلک افغانستان کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے تمام کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔اجلاس کے موقع پر حنا ربانی کھر دیگر شریک ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ دو طرفہ بات چیت بھی کریں گی۔دوحہ میں آمد سے قبل اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے دفتر نے کہا کہ ’اجلاس کا مقصد خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، جامع طرز حکمرانی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے ’طالبان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں عالمی برادری کے اندر ایک مشترکہ سمجھوتہ کرنا ہے۔'
مدعو نہ کیے جانے کے باوجود دوحہ میں طالبان رہنما سہیل شاہین نے کہا کہ انہوں نے برطانوی اور چینی وفود سے ملاقاتیں کی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملاقاتوں کے دوران اٹھائے گئے موضوعات میں اقوام متحدہ کا اجلاس اور 'رابطے کی اہمیت' شامل تھی۔ کئی تنازعات پر منقسم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جمعرات کو افغان خواتین اور لڑکیوں پر پابندیوں کی مذمت کرنے کے لیے متحد ہوئی اور تمام ممالک نے زور دیا کہ وہ پالیسیوں کو ’فوری طور پر تبدیل‘ کریں۔تاہم، سفارت کاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ دوحہ اجلاس بین الاقوامی برادری کو افغانستان سے نمٹنے میں درپیش مشکلات کو اجاگر کرتا ہے، جسے اقوام متحدہ اپنا سب سے بڑا انسانی بحران سمجھتا ہے جہاں لاکھوں افراد خوراک کے لیے امداد پر انحصار کرتے ہیں۔