اردو

urdu

ETV Bharat / international

Palestinian refugees from Gaza مصر، اردن اور دیگر عرب ممالک فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟

غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے ساتھ اپنی سرحدیں تقسیم کرنے والے مصر اور اردن فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں اس وجہ سے نہیں کھول رہے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے ہی ملکوں سے مستقل طور پر بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ریاستی مطالبات کو بھی کالعدم کرنا چاہتا ہے۔

Explained: Why Egypt, Jordan and other Arab countries are unwilling to take in Palestinian refugees from Gaza
مصر، اردن اور دیگر عرب ممالک فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 19, 2023, 10:00 PM IST

قاہرہ: غزہ میں اسرائیل کی مسلسل بمباری سے بچنے کے لیے مایوس فلسطینی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کو کہیں بھی پناہ نہیں مل رہی ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پڑوسی ملک مصر، اردن اور دیگر عرب ممالک اپنے فلسطینی بھائی بہنوں کو پناہ کیوں نہیں دے رہے ہیں۔ مصر اور اردن جو مخالف سمتوں سے اسرائیل کا ساتھ دیتے ہیں اور غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے ساتھ سرحدیں بانٹتے ہیں، پہلے ہی فلسطینیوں کو پناہ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اردن میں پہلے ہی فلسطینیوں کی ایک بڑی آبادی پناہ گزیں ہے۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے بدھ کے روز سخت ترین ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ جنگ کا مقصد صرف حماس سے لڑنا نہیں ہے، جو کہ غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرتی ہے، بلکہ عام شہریوں کو مصر کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش بھی ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اس سے خطے کا امن تباہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے ایک روز قبل ایسا ہی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اردن میں کوئی پناہ گزین نہیں، مصر میں کوئی مہاجر نہیں‘‘۔

اسرائیل کے وجود کے وقت 1948 کی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 700,000 فلسطینیوں کو وہاں سے نکال دیا گیا

ان دونوں ممالک کے انکار کی وجہ اس خوف میں پوشیدہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے ممالک میں مستقل طور پر بے دخل کرنا چاہتا ہے اور فلسطینیوں کے ریاستی مطالبات کو کالعدم کرنا چاہتا ہے۔ مصری صدر السیسی نے یہ بھی کہا کہ بڑے پیمانے پر انسانی انخلا سے عسکریت پسندوں کو مصر کے جزیرہ نما سینائی میں لانے کا خطرہ ہو گا، جہاں سے وہ اسرائیل پر حملے کر سکتے ہیں اور جس سے دونوں ممالک کے 40 سالہ پرانے امن معاہدے کو خطرہ لاحق ہو گا۔

فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تاریخ: مصر اور اردن کے موقف کی وجہ فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ نقل مکانی فلسطینی تاریخ کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اسرائیل کے وجود کے وقت 1948 کی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 700,000 فلسطینیوں کو وہاں سے نکال دیا گیا یا فرار ہو گئے جو اب اسرائیل ہے۔ فلسطینی اس واقعے کو نکبہ کہتے ہیں۔ 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں جب اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تو مزید 300,000 فلسطینی بھاگ کر اردن چلے گئے۔

پناہ گزینوں اور ان کی اولادوں کی تعداد اب تقریباً 60 لاکھ ہے، زیادہ تر مغربی کنارے، غزہ، لبنان، شام اور اردن میں کیمپوں اور کمیونٹیز میں مقیم ہیں۔تارکین وطن مزید پھیل چکے ہیں، بہت سے مہاجرین خلیجی عرب ممالک یا مغرب میں رہائش پذیر ہیں۔ 1948 کی جنگ میں لڑائی بند ہونے کے بعد اسرائیل نے پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل نے امن معاہدے کے ایک حصے کے طور پر پناہ گزینوں کی واپسی کے فلسطینی مطالبات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس سے ملک کی یہودی اکثریت کو خطرہ ہوگا۔

مصر کا خدشہ: مصر کو یہی خدشہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور غزہ سے آنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک بڑی آبادی کو خیر کے نام پر مصر میں ٹہھرایا جائے گا اور پھر دوبارہ انھیں غزہ جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کیونکہ اس جنگ کے خاتمے کے بارے میں کوئی واضح منظرنامہ نہیں ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔لیکن اس نے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ اس کے بعد کیا ہو گا اور غزہ پر کون حکومت کرے گا۔ اس نے خدشات کو جنم دیا ہے کہ یہ ایک مدت کے لیے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لے گا اور مزید تنازعات کو ہوا دے گا۔

یہ 10 جون 1967 کی فائل تصویر میں چھ روزہ جنگ کے دوران مصر کے شہر سینائی میں پرجوش اسرائیلی فوجیوں کو دکھایا گیا ہے۔(اے پی)

اسرائیلی فوج نے کہا کہ جن فلسطینیوں نے شمالی غزہ سے نقل مکانی کر کے اس کی پٹی کے جنوبی نصف حصے میں جانے کے حکم پر عمل کیا ہے، انہیں جنگ ختم ہونے کے بعد اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔ مصر کو اس پر یقین نہیں ہے۔ السیسی نے کہا کہ اگر اسرائیل یہ دلیل دیتا ہے کہ اس نے عسکریت پسندوں کو کافی حد تک کچل نہیں دیا ہے تو لڑائی برسوں تک چل سکتی ہے۔ مصر نے تجویز پیش کی کہ اسرائیل فلسطینیوں کو اپنے صحرائے نیگیو میں رکھے، جو کہ غزہ کی پٹی کا ہمسایہ ہے، جب تک کہ وہ اپنی فوجی کارروائیاں ختم نہیں کر دیتا۔

کرائسز گروپ انٹرنیشنل کے شمالی افریقی پروجیکٹ ڈائریکٹر، ریکارڈو فابیانی کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے اپنے ارادوں اور آبادی کے انخلا کے بارے میں واضح نہ ہونا اپنے آپ میں پریشانی کا باعث ہے۔ یہی الجھن پڑوسی ممالک میں خوف کو ہوا دے رہی ہے۔ مصر نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، مصر، جو تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی بحران سے نمٹ رہا ہے، پہلے ہی تقریباً 9 ملین پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی میزبانی کر رہا ہے، جن میں تقریباً 300,000 سوڈانی بھی شامل ہیں جو اپنے ملک کی جنگ سے فرار ہونے کے بعد اس سال وہاں پہنچے تھے۔

لیکن عرب ممالک اور بہت سے فلسطینیوں کو یہ بھی شبہ ہے کہ اسرائیل اس موقع کو غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ریاستی حیثیت کے فلسطینی مطالبات کو ختم کرنے کے لیے مستقل آبادیاتی تبدیلیوں پر مجبور کر سکتا ہے، جس پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کر لیا تھا۔ السیسی نے بدھ کو اس انتباہات کو دہرایا کہ غزہ سے انخلاء کا مقصد فلسطینی کاز کو ختم کرنا ہے، انہوں نے دلیل دی کہ اگر مذاکرات میں بہت پہلے غیر فوجی فلسطینی ریاست قائم کر دی جاتی تو یہ جنگ نہیں ہوتی۔

تمام تاریخی نظیریں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ جب فلسطینیوں کو فلسطینی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تو انہیں واپس اپنے مکان اور علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں ایک سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیلیر کا کہنا ہے کہ مصر غزہ میں نسلی صفائی میں شریک نہیں ہونا چاہتا۔

فلسطینی غزہ کی پٹی میں رفح بارڈر کراسنگ پر مصر میں داخل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ (اے پی)

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی قیادت میں سخت دائیں بازو کی جماعتیں جو فلسطینیوں کو ان کے مکان اور علاقوں سے بے دخل کرنے کے بارے میں کھل کر باتیں کرتی ہے عرب ممالک کے خوف میں اضافہ ہی کیا ہے۔ حماس کے حملے کے بعد سے دائیں بازو کے سیاست دانوں اور میڈیا کے مبصرین نے فوج سے غزہ کو مسمار کرنے اور وہاں کے باشندوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ایک قانون ساز نے یہاں تک کہہ دیا کہ اسرائیل کو غزہ پر "نیا نکبہ" کرنا چاہیے۔

حماس پر تشویش: وہیں مصر کا یہ بھی کہنا ہے کہ غزہ سے بڑے پیمانے پر انخلاء حماس یا دیگر فلسطینی عسکریت پسندوں کو اس کی سرزمین پر لے آئے گا۔ یہ سینائی علاقے میں عدم استحکام کا باعث ہو سکتا ہے، جہاں مصر کی فوج برسوں تک عسکریت پسندوں کے خلاف لڑتی رہی اور ایک موقع پر حماس پر ان کی پشت پناہی کا الزام بھی لگا۔ مصر نے 2007 میں حماس کے علاقے پر قبضے کے بعد سے غزہ میں اسرائیل کی ناکہ بندی کی حمایت کی ہے اور اس نے سامان کے داخلے اور شہریوں کے آگے پیچھے جانے پر سختی سے کنٹرول کیا ہے۔ اس نے سرحد کے نیچے سرنگوں کے نیٹ ورک کو بھی تباہ کر دیا جو حماس اور دیگر فلسطینی غزہ میں سامان سمگل کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

فابیانی نے کہا کہ سینائی کی شورش کو بڑے پیمانے پر کم کرنے کے ساتھ قاہرہ اس مشکل علاقے میں سیکورٹی کا کوئی نیا مسئلہ نہیں چاہتا۔ السیسی نے اس سے بھی زیادہ غیر مستحکم منظر نامے کے بارے میں خبردار کیا کہ مصر اور اسرائیل کے 1979 کے امن معاہدہ بھی ختم ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینی عسکریت پسندوں کی موجودگی سے سینائی "اسرائیل پر حملوں کا اڈہ بن جائے گا۔ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہو گا جس کی وجہ سے وہ مصری سرزمین پر حملہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو امن حاصل کیا ہے وہ ہمارے ہاتھوں سے غائب ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ فلسطینی کاز کو ختم کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ABOUT THE AUTHOR

...view details