اسلام آباد: پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک بھر میں ایک ہی دن میں انتخابات کے لیے وزارت دفاع کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے معاملے پر متفق ہوتی ہیں تو عدالت گنجائش نکالنے کے لیے تیار ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ نے ملک میں انتخابات ایک ساتھ کروانے سے متلعق درخواستوں پر سماعت کی۔ بدھ کے روز سپریم کورٹ نے وزارت دفاع اور دیگر درخواستیں ایک ساتھ مقرر کرتے ہوئے دو بجے سماعت شروع کی۔
اردو نیوز کے مطابق سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ نے انتخابات کے حوالے سے اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق اور قومی اسمبلی فنڈز کی قرار داد مسترد ہونے کے معاملے پر اٹارنی جنرل کو آڑے ہاتھوں لیا۔ابتدا میں عدالت کا رویہ جارحانہ تھا اور یہ تاثر مل رہا تھا کہ سپریم کورٹ گزشتہ ایک ہفتے میں پارلیمان میں ہونے والی کارروائی، الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کے جوابات سے مطمئن نہیں اور 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے فیصلے پر کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ تاہم جوں جوں سماعت آگے بڑھتی گئی کمرہ عدالت کا ماحول تبدیل ہوتا گیا۔چیف جسٹس نے آتے ہی اٹارنی جنرل کو مخاطب کیا اور کہا کہ معاملہ بہت لمبا ہوتا جا رہا ہے، حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں فنڈز کا معاملہ پہلے قائمہ کمیٹی کو منظوری کے لیے بھیجا، جس نے آگے قومی اسمبلی بھیجا جہاں سے مسترد کر دیا گیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’عدالت کو کہا گیا تھا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی۔ اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا۔ کیا الیکشن کے لیے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟'وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے۔ مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے، آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے پاس کر سکتی ہے؟ کیا حکومت کی بجٹ کے وقت اکثریت نہیں ہونی تھی؟ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے۔' جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزارت خزانہ کی ٹیم نے بار بار بتایا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے۔ حکومت کی گرانٹ اسمبلی سے کیسے مسترد ہو سکتی ہے۔ کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کا علم ہے۔ حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا سپلیمنٹری گرانٹ منظور نہیں کروا سکتی تھی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کو ہے، اسمبلی پہلے قرار داد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے، توقع ہے حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی، حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے جواب دے، اس معاملہ کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔' چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے جس کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے۔ دہشت گردی ملک میں 1992 سے جاری ہے لیکن پہلے بھی الیکشن ہوئے اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن نہیں ہو سکتے۔ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے۔ حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔