بیروت: شام کے وزیر صحت کے مطابق جمعرات کے روز وسطی شہر حمص میں فوجی گریجویشن کی تقریب پر ہونے والے ڈرون حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 80 ہوگئی ہے جبکہ 240 زخمی ہیں۔ یہ حالیہ برسوں میں شامی فوج پر سب سے مہلک حملوں میں سے ایک تھا، جب کہ اس ملک کا تنازع اب ت 13ویں سال میں ہے۔ وزیر صحت حسن الغباش نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں چھ بچے اور فوجی اہلکار سمیت عام شہری بھی شامل ہیں۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ شام کی فوج نے کہا کہ حمص میں نوجوان افسروں اور ان کے اہل خانہ سے بھری تقریب اختتام کو تھی جب اسے دھماکہ خیز مواد سے لدے ڈرون نے نشانہ بنایا ۔ فوج نے کسی خاص گروپ کا نام لیے بغیر، اس حملے کے لیے معروف بین الاقوامی افواج کے حمایت یافتہ باغیوں پر الزام لگایا۔ شامی فوج نے کہا کہ وہ ان عسکریت پسند تنظیموں کو پوری طاقت اور فیصلہ کن انداز میں جواب دے گی، چاہے وہ کہیں بھی موجود ہوں۔
فوری طور پر کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حمص میں ڈرون حملے کے ساتھ ساتھ شمال مغربی شام میں جوابی گولہ باری کی اطلاعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا، ان کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ فوج نے ہلاکتوں کی کوئی تعداد فراہم نہیں کی ہے لیکن شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے کہا کہ حکومت نے جمعہ سے شروع ہونے والے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس، اپوزیشن کے جنگی مانیٹرنگ، اور حکومت کے حامی شام ایف ایم ریڈیو اسٹیشن نے اس سے قبل حملوں کی اطلاع دی تھی۔