اردو

urdu

ETV Bharat / international

Syria Attack حمص میں ہوئے ڈرون حملے میں اسّی افراد ہلاک، دو سو چالیس زخمی: شام کے وزیر صحت

گذشتہ 13 سال سے شام میں جنگ کا ماحول ہے۔ لاکھوں افراد اب تک اس جنگ کا شکار ہوچکے ہیں۔ 5 ملین سے زائد شامی عوام دیگر ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ ایسے میں حالیہ برسوں میں ہوئے حملوں میں اب تک کا یہ سب سے مہلک حملہ فوجی گریجویشن تقریب پر ہوا۔ یہاں ڈرون سے حملہ کیا گیا جس میں 80 سے زائد ہلاک جب کہ 240 افراد زخمی ہوگئے۔ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ deadliest attacks on the Syrian army

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 6, 2023, 9:57 AM IST

Deadliest attacks on the Syrian army
Deadliest attacks on the Syrian army

بیروت: شام کے وزیر صحت کے مطابق جمعرات کے روز وسطی شہر حمص میں فوجی گریجویشن کی تقریب پر ہونے والے ڈرون حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 80 ہوگئی ہے جبکہ 240 زخمی ہیں۔ یہ حالیہ برسوں میں شامی فوج پر سب سے مہلک حملوں میں سے ایک تھا، جب کہ اس ملک کا تنازع اب ت 13ویں سال میں ہے۔ وزیر صحت حسن الغباش نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں چھ بچے اور فوجی اہلکار سمیت عام شہری بھی شامل ہیں۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ شام کی فوج نے کہا کہ حمص میں نوجوان افسروں اور ان کے اہل خانہ سے بھری تقریب اختتام کو تھی جب اسے دھماکہ خیز مواد سے لدے ڈرون نے نشانہ بنایا ۔ فوج نے کسی خاص گروپ کا نام لیے بغیر، اس حملے کے لیے معروف بین الاقوامی افواج کے حمایت یافتہ باغیوں پر الزام لگایا۔ شامی فوج نے کہا کہ وہ ان عسکریت پسند تنظیموں کو پوری طاقت اور فیصلہ کن انداز میں جواب دے گی، چاہے وہ کہیں بھی موجود ہوں۔

فوری طور پر کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حمص میں ڈرون حملے کے ساتھ ساتھ شمال مغربی شام میں جوابی گولہ باری کی اطلاعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا، ان کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ فوج نے ہلاکتوں کی کوئی تعداد فراہم نہیں کی ہے لیکن شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے کہا کہ حکومت نے جمعہ سے شروع ہونے والے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس، اپوزیشن کے جنگی مانیٹرنگ، اور حکومت کے حامی شام ایف ایم ریڈیو اسٹیشن نے اس سے قبل حملوں کی اطلاع دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: منشیات ایران اور شام سے ایک دوسرے سے جڑے نیٹ ورکس کے ذریعے عراق آتی ہے:عراقی وزیر داخلہ

شام کا بحران مارچ 2011 میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف پرامن مظاہروں سے شروع ہوا تھا، لیکن مظاہرین پر حکومت کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد جلد ہی مکمل طور پر خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا۔ یہ لہر 2015 میں باغی گروپوں کے خلاف اسد کے حق میں ہو گئی، جب روس نے شام کے ساتھ ساتھ ایران اور لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کو کلیدی فوجی مدد فراہم کی۔اس جنگ میں اب تک پانچ لاکھ افراد ہلاک، لاکھوں زخمی اور ملک کے کئی حصے تباہ ہو چکے ہیں۔ جنگ نے شام کی 23 ملین کی کل آبادی کے نصف کو بے گھر کر دیا ہے، جس میں 5 ملین سے زیادہ شام سے باہر پناہ گزین ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details