غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق لبنان، سری لنکا، روس، سورینام اور زیمبیا پہلے ہی دیوالیہ پن کا شکار ہیں، بیلاروس خطرے کے دہانے پر ہے اور کم از کم مزید ایک درجن ممالک معاشی بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں کیونکہ قرض کے بڑھتے اخراجات اور مہنگائی معاشی تباہی کے خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ Economic Crisis in Several Countries پاکستانی اخبار ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ بہت سے ممالک اب بھی دیوالیہ ہونے سے بچ سکتے ہیں، خاص طور پر اگر عالمی مارکیٹیں سازگار رہیں اور آئی ایم ایف کی حمایت بھی حاصل رہے لیکن یہ وہ ممالک ہیں جو اس وقت خطرے میں ہیں۔
ارجنٹینا: ارجنٹینا کی کرنسی 'پیسو' اب بلیک مارکیٹ میں تقریباً 50 فیصد کی رعایت پر تجارت کررہی ہے، ملک کے ذخائر انتہائی کم ہیں اور بانڈز کی تجارت ڈالر میں صرف 20 سینٹ پر ہوتی ہے جو اس کے 2020 کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے بعد کے نصف سے بھی کم ہے۔حکومت کے پاس 2024 تک کوئی خاطر خواہ واجب الادا قرض نہیں ہے لیکن اس کے بعد اس میں اضافہ ہو گا اور خدشات پیدا ہو گئے ہیں کی طاقتور نائب صدر کرسٹینا فرنانڈیز ڈی کرچنر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے معاہدے سے دستبردار ہو سکتی ہیں۔
یوکرین: مورگن اسٹینلے اور آمونڈی جیسے بڑے سرمایہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ روس کے حملے کے نتیجے میں یوکرین کو تقریباً یقینی طور پر 20 ارب ڈالر کے قرض کی ری اسٹرکچرنگ کرنی پڑے گی۔یہ بحران ستمبر میں آئے گا جب ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے بانڈز کی ادائیگیاں واجب الادا ہوں گی، امدادی رقم اور ذخائر کا مطلب ہے کہ کیف ممکنہ طور پر ادائیگی کر سکتا ہے لیکن رواں ہفتے یوکرین کی سب سے بڑی تیل اور گیس کی سرکاری کمپنی 'نفتوگاز' نے 2 سال تک قرضوں کی ادائیگی کو منجمد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے سرمایہ کاروں کو شبہ ہے کہ حکومت اس پر عمل کرے گی۔
تیونس: آئی ایم ایف کے پاس جانے والے کئی افریقی ممالک ہیں لیکن ان میں تیونس سب سے زیادہ خطرے میں نظر آتا ہے، 10 فیصد کے قریب بھاری بجٹ خسارے کی موجودگی میں یہ خدشات بھی درپیش ہیں کہ صدر قیس سعید کی جانب سے اپنے اقتدار اور ملک کی طاقتور مزدور یونین پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کا حصول یا کم از کم اس پر قائم رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔
گھانا: مسلسل قرضے لینے سے گھانا کے قرض اور جی ڈی پی کا تناسب تقریباً 85 فیصد تک بڑھ گیا ہے، اس کی کرنسی 'سیڈائی' رواں سال اپنی قدر کا تقریباً ایک چوتھائی کھو چکی ہے اور یہ پہلے ہی قرض کے سود کی ادائیگیوں پر ٹیکس محصولات کا نصف سے زیادہ خرچ کر رہا تھا جبکہ مہنگائی بھی 30 فیصد کے قریب پہچ چکی ہے۔