اسلام آباد: دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑے پاکستان کو چین نے ایک دو نہیں بلکہ 2.5 لاکھ کروڑ روپے کے قرض تلے دبا دیا ہے۔ امریکہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے انکار کے بعد چین نے 70 کروڑ ڈالر یعنی 58 ہزار کروڑ روپے کا قرض دیا ہے۔ چین نے پاکستان کو یہ بیل آؤٹ ایسے وقت میں دیا ہے، جب آئی ایم ایف جیسے اداروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے تھے۔ چین سے ملنے والے اس قرض سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 20 فیصد اضافہ ہوگا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ کی رات ٹویٹ کیا کہ چین نے پاکستان کو 58 ہزار کروڑ روپے کا قرض دیا ہے۔ چین کی طرف سے دیئے گئے اس قرض سے پاکستان کو فوری طور پر راحت ملے گی، لیکن اس سے پاکستان پر مزید بوجھ بڑھے گا۔ دی گارجین کے مطابق، پاکستان اس وقت 100 ارب ڈالر یعنی 8.3 لاکھ کروڑ روپے کے قرض تلے دبا ہے۔ اس میں چین کا حصہ 30 فیصد ہے۔
اطالوی تنظیم اوسرویوریا گلوبلائزون کے مطابق چین نے یہ نیا قرض اس شرط پر دیا ہے کہ وہ لاہور اورنج لائن پروجیکٹ کے لیے ملنے والے 5.56 کروڑ ڈالر کا ری پیمنٹ نومبر 2023 تک کر دے۔ دی گارجین کے مطابق چین نے 700 ملین ڈالر کا جو قرض دیا ہے وہ پاکستان کے کل قرضوں کا 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہاں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چین دوسرے قرض دہندگان سے زیادہ سود وصول کرتا ہے۔ پاکستان اب بھی مغربی ایشیائی بینک کا 8.77 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ اس میں بینک آف چائنا، آئی سی بی سی اور چائنا ڈیولپمنٹ بینک شامل ہیں۔ چینی کمرشل بینک دوسرے قرض دہندگان کے مقابلے میں 5.5 سے 6 فیصد پر قرض دیتے ہیں۔ وہیں دوسرے ملک کے بینک تقریباً 3 فیصد سود پر قرض دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ چین ساہوکاروں کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔
جب بات دو طرفہ قرضوں کی ہو تو چین مختصر مدت کے لیے زیادہ شرح سود بھی وصول کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی، جاپان اور فرانس ایک فیصد سے کم شرح سود پر قرض دیتے ہیں جبکہ چین 3 سے 3.5 فیصد سود پر قرض دیتا ہے۔ سال 2021-2022 میں، پاکستان کو 4.5 ارب ڈالر کے قرض پر چین کو بطور سود تقریباً 150 ملین ڈالر یعنی 1.3 ہزار کروڑ روپے ادا کرنے پڑے، وہیں 2019-2020 میں، پاکستان کو 3 ارب ڈالر کے قرض پر 120 ملین ڈالر یعنی 995 کروڑ روپے بطور سود چکانے پڑے۔ اس کے علاوہ بیجنگ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پی ای سی کے لیے پاکستان کو خطیر رقم قرض کے طورپر دی ہے۔