تل ابیب: اسرائیل میں ممکنہ طور پر امسال نومبر میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران سیاسی عدم استحکام کی شکار صہیونی ریاست میں یہ پانچویں انتخابات ہوں گے لیکن اس مرتبہ عرب جماعتیں منقسم اور یہودی دایاں بازوں کی جماعت تین یاھو کی قیادت میں متحد دکھائی دیتا ہے۔ العربیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس تناظر میں انتخابی ماحول اور اسرائیل کے سیاسی حالات پر نظر ڈالیں تو ایک طرف عرب جماعتوں کی فہرست منتشر ہے اور دوسری طرف اپوزیشن رہنما بنجمن نیتن یاھو کے پیچھے تمام دائیں بازو کی یہودی پارٹیاں متحد ہو گئی ہیں، اور اب یہ اتحاد صہیونی ریاست کی قیادت کا خواہاں ہے۔Israel's Election Campaign Begins
چار سال میں پانچویں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے جمعرات کو سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری کر دی ہیں۔ نام سامنے آنے سے واضح ہو گیا کہ چار عرب جماعتوں کے اتحاد ”جوائنٹ لسٹ“ کا خاتمہ ہو گیا اور اب یہ عرب جماعتیں الگ الگ شناخت سے انتخابات میں جائیں گی۔اس جوائنٹ لسٹ میں ڈیموکریٹک فرنٹ فار پیس اینڈ ایکویلیٹی کی قیادت ایمن عودہ کر رہے، نیشنل ڈیموکریٹنگ گیدرنگ کے سربراہ سامی ابو شحادہ تھے۔ بزعم خود اخوان کے نمائندے منصور عباس کے زیر سربراہی یونائیٹڈ عرب لسٹ آتی تھی۔ احمد الطیبی عرب موومنٹ فار چینج کے سربراہ تھے۔
عرب جماعتوں کا یہ اتحاد اب بکھر چکا ہے۔ ڈیموکریٹک فرنٹ اور عرب موومنٹ فار چینج اس وقت جوائنٹ لسٹ میں شامل ہیں اور نیشنل ڈیموکریٹک گیدرنگ اور یونائیٹڈ عرب لسٹ حکومتی اتحاد میں جا چکی ہیں۔ گویا یہ چار جماعتی اتحاد اب دو حصوں میں منقسم ہے۔
اسرائیل کے انتخابات میں عرب ووٹرز کی شرکت کمزور رہنے کے خدشہ اور عرب جماعتوں کے اتحاد ”جوائنٹ لسٹ“ کے منتشر ہونے کے باعث صہیونی پارلیمنٹ میں عرب نمائندگی ختم ہونے یا انتہائی کم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ بکھرے ووٹوں کے باعث اس مرتبہ اسرائیلی مقابلے کی تاریخ میں عرب ارکان کی موجودگی سب سے کم ہو سکتی ہے۔رائے عامہ کے تمام حالیہ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل میں مقیم عرب ووٹرز میں سے ووٹ ڈالنے والوں کی شرح 40 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھے گی۔
عرب ووٹرز کے الیکشن میں ووٹ دینے کی اس کم شرح کا مطلب ہے کہ اگر الیکشن میں نتائج درست سامنے آتے ہیں تو تین عرب جماعتوں کی ضمانتیں ضبط ہونے کا خطرہ ہے۔ خاص طور پر یہودی ووٹرز کی ووٹ ڈالنے کی شرح 75 فیصد سے تجاوز کر جانے کی صورت میں عرب امیدواروں کی ووٹ حاصل کرنے کی شرح مزید کم ہو جائے گی۔
عرب اتحاد جوائنٹ لسٹ میں اختلافات کا آغاز اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب گزشتہ الیکشن کے بعد صدر بننے کی مشاورت کے دوران اتحاد میں شامل ”نیشنل ڈیموکریٹک گیدرنگ“ نے مطالبہ کر دیا تھا کہ اتحاد میں شامل کوئی جماعت کسی صدارتی امیدوار کو نامزد کرنے کی تائید نہ کرے۔اختلافات تو اس وقت ہی بڑھ گئے تھے جب اتحاد کو الیکشن کے بعد جن نشستوں یا عہدوں کے ملنے کا یقین ہوا تو ان عہدوں کی تقسیم پر ہی جماعتوں نے لڑائی شروع کر دی تھی۔ یاد رہے الیکشن سے قبل کے ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جوائنٹ لسٹ الیکشن میں 6 نشستیں جیت جائے گی۔
جمعرات کی شام ”ڈیموکریٹک فرنٹ فار پیس اینڈ ایکویلیٹی“ اور ”عرب موومنٹ فار چینج“ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ یہ دونوں جماعتیں ملکر الیکشن میں حصہ لیں گی، ان کے ساتھ یہودی ترقی پسند قوتیں بھی شامل ہوں گی۔ اس بیان میں دونوں جماعتوں نے جوائنٹ لسٹ سے اپنے اختلافات کی وجوہات بھی بیان کیں۔بیان میں کہا گیا کہ ڈیموکریٹک فرنٹ اور عرب موومنٹ نے اپنے مشترکہ مفاد کو بچاتے ہوئے گذشتہ کل بہت سی باتوں پر پسپائی اختیار کر لی تھی اور مجوزہ معاہدہ میں جیت صرف ”نیشنل ڈیموکریٹک گیدرنگ“ کی تھی کیونکہ اس کی نمائندگی کو دو گنا کرنے کی ضمانت دی گئی تھی۔