واشنگٹن: صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ یہ اعلان کرنے کی تیاری کر رہی ہے کہ وہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک قومی حکمت عملی تیار کرے گی۔ اس معاملے پر بریفنگ دینے والے لوگوں کے مطابق، امریکہ غزہ پر اسرائیل کی فوجی کارروائی کی حمایت کر رہا ہے، جس کے بعد مسلم امریکی کمیونٹی میں بہت سے لوگوں کی طرف سے امریکہ کے اسلامو فوبیا سے متعلق حکمت عملی پرشکوک و شبہات ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو تین لوگوں نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس کا یہ اعلان اصل میں گزشتہ ہفتے اس وقت متوقع تھا جب بائیڈن نے مسلم رہنماؤں سے ملاقات کی تھی، لیکن اس میں تاخیر ہوئی تھی۔ ان میں سے دو کا کہنا تھا کہ تاخیر کی وجہ مسلم امریکی کمیونٹی کے خدشات ہیں، کیونکہ امریکی انتظامیہ اسرائیل کی فوج کی بھرپور حمایت کررہا ہے۔ اس لیے امریکہ پر اس مسئلے پر اعتبار کا فقدان ہے۔
مئی میں انتظامیہ کی جانب سے سام دشمنی سے نمٹنے کے لیے ایک قومی حکمت عملی جاری کی گئی تھی۔ اس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا مقابلہ کرنے کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ اسلامو فوبیا کے خلاف حکمت عملی کا آغاز مہینوں سے متوقع تھا۔ توقع ہے کہ باضابطہ حکمت عملی کو رسمی شکل دینے میں کئی ماہ لگیں گے۔
7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے اچانک حملے کے بعد سے امریکہ اور بیرون ملک یہودی اور مسلم مخالف نفرت کے واقعات آسمان چھو رہے ہیں۔ سب سے نمایاں حملوں میں سے ایک 6 سالہ ودیہ الفیوم کا قتل اور اس کی والدہ کا ایک حملے میں زخمی ہونا تھا۔ جسے استغاثہ نے اسلامو فوبیا سے تعبیر کیا ہے۔ اس نفرت انگیزی پر امریکی صدر نے کہا تھا کہ "نفرت کے اس ہولناک عمل کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ ہماری بنیادی اقدار کے خلاف ہے۔ ہم کیسے عبادت کرتے ہیں، ہم کیا مانتے ہیں، اور ہم کون ہیں،اس خوف سے آزادی ہونا چاہیئے،"