اسلام آباد: پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف جوڈیشل کمپلیکس میں ہنگامہ آرائی سمیت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں درج 8 مقدمات میں سے 5 مقدمات میں ضمانت کنفرم اور 3 میں ضمانت میں 4 جولائی تک توسیع کر دی گئی۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن کی زیر سربراہی چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ تھانہ سنگجانی کا مقدمہ سب سے پرانا ہے، یہ مقدمہ 2022 میں درج ہوا لہٰذا سب سے پہلے میں مقدمات کے پس منظر پر بات کرنا چاہوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی حکومت جانے کے بعد سیاسی انتقام بنانے کا سلسلہ شروع ہوا، سیاسی حریفوں نے درخواست گزار سے بدلہ لینے کے لیے یہ سب کیا اور درخواست گزار اور ان کی پارٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار اور ان کی پارٹی کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے اور شہباز گل کا پہلا کیس تھا جس میں دوران حراست تشدد کی بات سامنے آئی۔انہوں نے کہا کہ درخواست گزار اور ان کے وکلا کا کنڈکٹ انتہائی مثبت ہے، درخواست گزار کی ہمت غیر معمولی ہے اور کوئی جواں سال لڑکا بھی اتنا نہیں لڑ سکتا، جب بھی مقدمہ درج ہوتا ہے وہ آپ کے سامنے پیش ہوتا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ درخواست گزار 71 سال کے ہوچکے ہیں، ان کی عمر ان کو اس ریلیف کا حقدار بناتی ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی عدالت سے انصاف چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا رویہ عدالت کے سامنے واضح ہے، انسدادِ دہشت گردی عدالت صرف دہشت گردوں کے لیے مختص ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دہشت گردی کی دفعہ ہٹانے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود درخواست گزار کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں صرف حکومتی وکیل موجود ہیں، مقدمات درج کروانے والے موجود نہیں، عدالت کا وقت بچائیں، بتائیں کتنے کیسز میں بے گناہ ہیں، میں ان پر دلائل نہ دوں۔