شام میں تقریباً ایک عشرے سے جاری خانہ جنگی کے دوران ہونے والے انتخابات میں شام میں بدھ کی صبح صدارتی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کا آغاز ہو گیا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ انتخابات میں صدر بشار الاسد کی کامیابی متوقع ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’سانا‘ کے مطابق ڈاکٹر بشار الاسد اور ان کی اہلیہ نے دوما میں اپنا ووٹ ڈالا۔ دوسری طرف امریکہ اور یورپ نے انتخابات کی مذمت کی ہے۔
سال 2011ء میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد یہ دوسرے صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ انتخابات کا مقصد بشار الاسد کو چوتھی مدت کے لیے صدر منتخب کر کے مزید 7 سال حکمرانی کا موقع دینا ہے۔
العربیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شام کی جنگ اور خانہ جنگی کے نتیجے میں ملک کا بنیادی ڈھانچہ اور معیشت تباہی کا شکار ہو گئی۔ اس دوران ملک میں 3.88 لاکھ سے زیادہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور آدھی سے زیادہ آبادی بے گھر ہو کر اندرون اور بیرون ملک پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہی ہے۔ مغربی طاقتوں نے انتخابات کی شفافیت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بشار الاسد کے مخالفین نے انتخابات کو ''خانہ پُری'' قرار دیا۔
توقع ہے کہ پولنگ ختم ہونے کے 48 گھنٹوں کے اندر انتخابی نتائج جاری کر دیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ شام کے صدارتی انتخابات کے خلاف ایک زبردست ریلی میں بدھ کے روز ہزاروں افراد باغیوں کے زیر قبضہ شہر ادلیب کی سڑکوں پر نکلے۔