امریکی افواج کے اگست میں افغانستان سے انخلا، 20 سالہ فوجی موجودگی کے اختتام اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ ہفتہ کے روز دوحہ میں امریکہ اور امارت اسلامیہ افغانستان کے وفود کے درمیان براہ راست ملاقاتیں ہوئیں۔
دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں اہم ایجنڈے کے طور پر افغانستان میں بحران کی صورت حال اور 2020 امریکہ طالبان معاہدے پر عمل درآمد کرنا شامل تھا۔
افغان سفارت کار کے مطابق سینئر طالبان عہدیداروں اور امریکہ کے نمائندوں نے قطر میں مذاکرات شروع کرتے ہوئے اپنے ملک کے تعلقات میں "ایک نیا صفحہ کھولنے" پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک آڈیو پیغام میں بتایا کہ کابل اور امریکہ کے درمیان تعلقات ، دوحہ معاہدے پر عملدرآمد، انسانی امداد اور افغان اثاثوں کی ریلیز سمیت دیگر امور پر بات چیت ہوئی۔
قائم مقام وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ طالبان نے گزشتہ سال واشنگٹن کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کیا جس سے حتمی امریکی انخلا کی راہ ہموار ہوئی۔
طالبان کے رہنما قطری وزیرخارجہ کے ساتھ متقی نے بتایاکہ "ملاقات میں انسانی امداد پر تبادلہ خیال کیا گیا اور دوحہ معاہدے کے مکمل نفاذ اور افغانستان کی فضائی حدود کے احترام پر بھی زور دیا گیا۔"
وزیر نے کہا کہ افغان وفد نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے مرکزی بینک کے ذخائر پر عائد پابندی ختم کرے اور انہوں نے کہا کہ امریکا کووڈ 19 کے خلاف افغانوں کو ویکسین دینے میں بھی مدد کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ وعدہ کیا جا رہا ہے کہ ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھیں گی اور صبر کریں گی جبکہ افغانستان بہت مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔
امیر خان مفتی نے افغان سرکاری نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ہم نے انہیں واضح طور پر بتایا کہ افغانستان میں حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کسی کے لیے بھی اچھی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کا وفد بعد میں یورپی یونین کے نمائندوں سے ملاقات کرے گا۔
وہیں، امریکی محکمہ خارجہ کے پریس سیکریٹری نے بتایا کہ ایک جامع حکومت کی تشکیل، امریکی شہریوں اور ان کے مقامی اتحادیوں کے لیے محفوظ راستہ اور خواتین کے حقوق امریکی وفد کی اسلامی امارات کی ٹیم کے ساتھ بات چیت کے اہم حصے ہیں۔
ایک سینئر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ یہ ملاقات تسلیم یا قانونی حیثیت دینے کے بارے میں نہیں تھی۔ ہم واضح ہیں کہ کوئی بھی قانونی جواز طالبان کے اپنے اقدامات سے حاصل کیا جانا چاہیے۔ انہیں مستقل ٹریک ریکارڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ "
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین افغانستان پر بات چیت کے لیے جمعرات کو پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔