امریکہ نے شام کی حکومت پر مزید دباؤ ڈالنے کے لئے شامی افراد اور اداروں کے خلاف ایک درجن سے زائد پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'ان پابندیوں میں شامی جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ، شام کے وسطی بینک کے گورنر اور کئی کاروباری نیٹ ورک کے نام شامل ہیں، جو مبینہ طور پر حکومت اور اس کے حامیوں کے لئے ٹیکس وصول کرتے ہیں'۔
محکمہ خارجہ نے اسی روز شام کے تنازعہ میں اپنے کردار کے لئے دیگر تین شامی افراد کو بلیک لسٹ میں شامل کیا۔
شام میں مارچ 2011 میں جنوبی شہر دیرا میں پڑوسی عرب ملکوں کے بہار عرب کی تحریک سے متاثر ہو کر جمہوریت کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں تشدد پھوٹ پڑا۔ بیان کے مطابق ریاستہائے متحدہ میں نامزد اداروں اور افراد کے تمام املاک اور مفادات کو مسدود کردیا گیا ہے اور امریکی افراد کو عام طور پر ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین میں ملوث ہونے سے منع کیا گیا ہے۔
ایک شامی خاندان شاہراہ سے گزرتے ہوئے۔ جہاں فوجوں کی پہرے داری بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے ایک پریس ریلیز کے مطابق 'شام کے تنازعہ کے پرامن اور سیاسی حل کے حصول کے لئے امریکی حکومت کی مسلسل کوششیں جاری ہیں'۔
امریکی محکمہ خزانہ اسد حکومت کے ان اہم کارگروں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جو شام کی عرب فوج کے چوتھے ڈویژن سے وابستہ ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شام میں حکومت کو بے دخل کرنے کی نیت سے مظاہرے شروع ہوئے، لیکن بعد میں خانہ جنگی کا شکل اختیار کرگئے۔ مزید برآں اس کارروائی میں اسد حکومت کے دو اہم عہدیدار بھی شامل ہیں: شامی جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اور شام کے وسطی بینک کے گورنر جنھیں شام میں بڑے عہدے مانا جاتا ہے۔