اردو

urdu

ETV Bharat / international

امریکہ اور ایران دونوں ایک جیسے - سفارتکار انل ٹرگنایت

سفارتکار انل ٹرگنایت نے امریکہ اور ایران کے مابین تعلقات پر کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کا خاتمہ لگ بھگ ہوچکا ہے، لیکن بااثر ممالک کو دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے اور متعلقہ ممالک کی لیڈر شپ کو حقیقی سیاسی فہم جنگ سے گریز کرنے اور کشیدگی کو مزید بڑھانے سے روکنے میں مد د کرنی چاہیے۔

امریکہ اور ایران دونوں ایک جیسے
امریکہ اور ایران دونوں ایک جیسے

By

Published : Feb 4, 2020, 2:06 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 3:33 AM IST

سابق امریکی صدر اوبامہ کی انتظامیہ نے ایران کی جوہری قوت بننے کی خواہش پر روک لگانے کے لیے مشترکہ جامع منصوبہ برائے نفاذ( جوائنٹ کمپرہنسیو پلان آف ایکشن) کو ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ لیکن اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے محض ردی کا ایک ٹکڑا قرار دیا۔
یہ اس معاہدے کے خاتمے کی شروعات تھی۔ جب سے ٹرمپ نے جوہری معاہدہ ختم کردیا ، اس نے ایران کو قابو کرنے کے لیے اس پر دباؤ بڑھانا اور وسیع پیمانے پر مالی پابندیاں لگانا شروع کردی۔
اس ضمن میں اس نے پہلے سے ہی موجود شیعہ، سنی اختلافات اور ایران کے ساتھ سعودی و اسرائیل کی دشمنی سے فائدہ اٹھایا۔ جارڈ کشنر کے دور میں اسرائیل نے خلیج کے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اچھی شروعات کی تھی لیکن ایران کے چیلنج کی وجہ سے خطے میں حالات مزید کشیدگی کی طرف بڑھ گئے ۔ حالات پہلے ہی کشیدہ تھے کیونکہ کئی تنازعات کے پس پردہ ایران کا ہاتھ تھا۔
دوسری جانب ایران کے غیر سرکاری عسکری قوتوں جیسے حزب اللہ، حماس، ہوتھس اور عراق میں شیعہ عسکری قوتوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ وہ ان کا اثرو رسوخ بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔
امریکہ کے مشترکہ جامع منصوبے سے الگ ہوجانے کی وجہ سے مزید منفی نتائج برآمد ہونے لگے۔ ایرانی خطے میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے کہ تجارتی اور توانائی سپلائی کی سرگرمیاں متاثر ہوگئیں۔ خوش قسمتی سے امریکی فوج کا ڈرون گرائے جانے، خلیج میں کئی بحری جہازوں اور سعودی میں تیل کے کارخانوں پر حملوں کا کوئی براہ راست جواب نہیں دیا گیا۔
لیکن اس کے بعد صدر ٹرمپ نے ایرانی القدس فورسز کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا فیصلہ کیا۔ اسے27 دسمبر کو ایک امریکی ٹھیکیدار کے قتل کے بدلے میں بغداد ایئرپورٹ کے قریب مارا گیا۔ ایران حامی ایک اور اعلیٰ عسکری لیڈر المدنی بھی ڈرون حملے میں مارا گیا ہے۔
کسی غیر ملکی حکومت کی جانب سے ایک صاحب منصب جنرل کی ہلاکت اصل میں بین الاقوامی ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔ اس طرح کی دیدہ دلیری کوئی معمول نہیں ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا جب دونوں ممالک مختلف درمیانہ داروں کی وساطت سے جنگ کے امکان کو ختم کرنے اور افہام و تفہیم کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ایران میں غم و غصہ عیاں ہے۔ سلیمان کی آخری رسومات میں شرکت کرنے والے بھاری ہجوم میں اس خون کا بدلہ امریکہ سے لینے کے نعرے بلند کئے گئے۔ٹویٹر پر بھی جنگ جاری ہے۔جبکہ حقیقی جنگ کے نتائج بھیانک ہوسکتے ہیں۔
یہ بات بھی حیران کن نہیں ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی اور دوسرے لیڈروں نے بدلہ لینے کی صدا بلند کی۔سفارتخانے اور دوسری جگہوں سے امریکیوں کو نکل جانے کے لئے کہا گیا ۔عراق بھی امریکہ کی اس بدحواس کارروائی سے نالاں ہے اور اسے لگتا ہے کہ اسکی حاکمیت کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
عراقی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ سے کہا جائے گا کہ وہ یہاں سے چلا جائے اور یہ امریکہ کے لیے حکمت عملی کے لحاظ سے بدترین نقصان ہے کیونکہ امریکہ ابھی اس خطے میں اپنی موجودگی کو بر قرار رکھنا چاہتا ہے۔جبکہ وہ افغانستان اور شام سے اپنی فوجیں نکالنے کا من بنا چکا ہے۔لیکن بعض واقعات کی وجہ سے امریکہ اپنی فوجی موجودگی کو مزید مضبوط کرنے پر مجبور ہے اور اسکی وجہ سے امریکی مفادات اور اثاثوں کو خطرات لاحق ہے۔
دوسری جانب سیکریٹری پمپو نے سلیمانی کی ہلاکت کو جواز بخشا ہے۔انہوں نے کہا، یہ واضح ہے کہ دنیا قدرے محفوظ ہے کیونکہ قاسم سلیمانی اب اس کرہ ارض پر موجود نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے سلیمانی کو دہشت گردی کی مہم سے روکنے کا درست فیصلہ کیا۔کیونکہ وہ امریکہ مخالف تھا اور اس کے مستقبل کے منصوبوں میں رکاؤٹ بن رہا تھا۔
ایران کی جانب سے بدلے کی للکار کے جواب میں ٹرمپ نے تباہ کرنے کیلئے ایران میں 52 اہداف کی فہرست جاری کردی اور کہا کہ ایران کو دھکمیاں دینا بند کردینا چاہیے۔تاہم ایران حامی عسکری قوتوں نے بدلہ لینے کے اپنے منصوبے تیار کریں گے جنہیں امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے پراکسی قرار دیا ہے ۔
امریکہ کے اتحادیوں نے صبر تحمل کا مظاہرہ کیا اور جنگ کا ماحول ختم کرنے کی تلقین کی ہے۔تاہم اس طرح کی یکطرفہ کارروائیوں کے نتیجے میں مسلسل نئے واقعات رونماہورہے ہیں، جس کی وجہ سے اس خطے کی تباہی کے بیچ بوئے جارہے ہیں۔ کوئی بھی اس کے نتائج کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
فی الوقت ہر طرف سے لفظی جنگ جاری ہے۔لیکن اصل نقصان ہوچکا ہے۔ایران نے نیوکلیائی منصوبوں کو مزید قوی بنانے کا حق جتایا ہے۔امریکہ اور ایران کے تعلقات کا خاتمہ لگ بھگ ہوچکا ہے۔اسکے اپنے نتائج ہونگے ۔کیونکہ با اثر ممالک کے آپسی تعلقات میں پھیر بدل ہورہا ہے اور خطے میں نئی قوتیں ابھر رہی ہیں،جن میں عالمی سپلائی نظام کو درہم برہم کرنے کی بھر پور صلاحیت ہے اور یہ کسی بھی لحاظ سے عالمی امن، اقتصادیات اور استحکام کے لیے ٹھیک بات نہیں ہوگی۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک کو مالی فائدہ ہوسکتا ہے لیکن عام ممالک کو معاشی لحاظ سے منفی نتائج سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ امن کے مواقع فراہم کیے جائیں اور متعلقہ ممالک کی لیڈر شپ کو حقیقی سیاسی فہم جنگ سے گریز کرنے اور کشیدگی مزید بڑھانے سے روکنے میں مد د کرنی چاہیے ۔ ایران کے لیے صورتحال اس لیے زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ ایک تو اسکے شہریوں کی ایک بڑی تعداد بیرونی ممالک میں ہے اور دوسرا یہ ملک ضروری اشیاء اور توانائی کی سپلائی کے محتاج ہے۔
اسی لیے بھارتی وزیر خارجہ نے امریکہ، ایران اور اومان کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ بات کی ہے ،جن سے انہوں نے حال ہی میں ملاقات کی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ ایف ایم جاوید ظفر جنہیں اگلے ہفتے رائے سنا مذاکرات میں شریک ہونے کے امکانات ہیں اور جس سلسلے میں وہ امکانی طور پر نئی دلی میں قیام کریں گے ۔ اس سے پہلے رابطہ کرنے کا مقصد سود مند نتائج برآمد کرنے کی ایک کوشش ہے۔
فی الوقت تمام متعلقین کی جانب سے حالات کو مزید کشیدہ ہونے سے روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن بعض اوقات نان سٹیٹ ایکٹرس کی سرگرمیوں سے لگام ان کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔

( سفارتکار انل ٹرگنایت، جارڈن ، لیبیا اور مالٹا کے سابق بھارتی سفیر ہیں

Last Updated : Feb 29, 2020, 3:33 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details