شام کے صدر ( Syrian President ) بشار الاسد ( Bashar Assad ) ایک بار پھر صدارتی انتخاب presidential election میں کامیاب ہو گئے ہیں اور وہ اس طرح چوتھی بار شام ( syria ) میں صدر کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ شام میں صدر کی مدت سات سال ہوتی ہے۔ حالانکہ اس انتخاب کو شام میں حزب اختلاف اور مغربی ممالک نے ناجائز اور شرمناک قرار دیا ہے۔
عہدیداروں کے مطابق شام میں 18 ملین ووٹر ہیں۔ اسد کی جیت کے متعلق کسی کو شکوک نہیں تھے۔
اسد کی فتح کے بعد ان کے حمایتیوں نے سڑکوں پر جلوس نکالے اور نعرےبازی کی۔
اس کے حمایتی ایک ووٹر عبیر العلی نے کہا کہ ''ہم خاص طور پر صدر بشار الاسد کی جیت سے بہت خوش ہیں اور یہ اپنے آپ میں ایک فتح ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگلے مرحلے میں ہمیں وہ سب کچھ مل جائے گا جس کی ہم خواہش کریں گے۔"
اس دوران بڑی تعداد میں ملک بھر میں لوگوں نے صدارتی انتخاب کے خلاف ریلی نکالی اور صدر بشار الاسد کے خلاف نعرے لگائے۔
مظاہرہ میں شامل ایک شخص سلوا عبد الرحمن نے کہا کہ ''میں نے فیس بک کھولا تاکہ بشار الاسد کو اپنے آپ کو منتخب کرتے ہوئے دیکھوں۔ یہ لوگوں کو کس قدر ہلکا پھلکا سمجھ رہے ہیں۔ میں یہاں اپنا ووٹ ڈالنے آیا ہوں، آپ کی قانونی حیثیت سے انکار کرتا ہوں اور اس انتخاب سے کیونکہ آپ نے شامی لوگوں کا قتل کیا ہے، انہیں بے گھر کیا ہے اور حراست میں لیا ہے اور وہ ابھی بھی جیلوں میں قید ہیں۔ ہم یہاں کہنے آئے ہیں کہ اس انتخاب کا کوئی جواز نہیں ہے۔''
گزشتہ دس سالوں سے تنازع کے شکار اس ملک میں باغیوں یا کردوں کی زیر قیادت فوج کے زیر کنٹرول علاقوں میں ووٹ نہیں ڈالے گئے۔