متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ٹیلی فون کالز کا آغاز ہوا۔ جس میں امریکی سفارتی معاہدے کے پہلے ٹھوس اقدام کی نشاندہی کی گئی۔ اس کے تحت اسرائیل کو فلسطینیوں کی اراضی پر مزید قبضے کے منصوبوں کو روکنے پر زور دیا گیا ہے۔
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور اسرائیل کے مابین امن معاہدہ کا اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات استوار کرنے پر متفق ہونے کا خیر مقدم کیا۔
انھوں نے کہا ہے کہ 'دونوں کے حکومتی وفود آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی اور باہمی سفارتخانوں کے قیام سے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے'۔
اماراتی عہدیداروں نے اعتراف کیا کہ وزیر خارجہ شیخ عبد اللہ بن زاید النہیان نے اپنے اسرائیلی ہم منصب گبی اشکنازی کو فون کیا ہے۔
یو اے ای کی سڑکوں کو روشنیوں سے جگمگایا گیا تاہم اس معاہدے پر غصے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پاکستان میں مظاہرین نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے معاہدے کے بارے میں شدید مخالفت کیا۔
متحدہ عرب امارات نے ایرانی صدر کے پہلے تبصرہ پر تنقید کرنے کے لئے ایران کے چارج ڈیفائر کو طلب کرکے اس بیان کو دھمکی آمیز قرار دیا ہے۔
امارات کی یہودی کونسل کے صدر راس کرئیل نے بتایا ہے کہ 'یہ معاہدہ ایک معجزے سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ اس کے بعد اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں اور آخر کار لوگ اکٹھے ہوکر بات چیت شروع کرسکتے ہیں'۔
ایک اسرائیلی ربی اپنی مذہبی مسودہ کو پڑھتے ہوئے اسرائیلی مواصلات کے وزیر یوز ہینڈل نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ 'متحدہ عرب امارات قابل مبارکباد ہے کہ اس نے آپسی بات چیت اور قیام امن و ترقی کے سلسلے میں پہل کی اور اسرائیل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا'۔
ہینڈل نے کہا ہے کہ 'اب بہت سارے معاشی مواقع کھلیں گے اور اعتماد سازی کے یہ اقدامات ریاستوں کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ایک اہم قدم ہے'۔
پاکستان سمیت مخلتف مسلم ممالک میں اس معاہدہ کے خلاف احتجاج کیا گیا واضح رہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے جمعرات کو اعلان کیا کہ وہ امریکہ کی ثالثی میں امن معاہدے کے تحت مکمل سفارتی تعلقات استوار کر رہے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اس تاریخی معاہدے نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو دوبارہ انتخاب کے خواہاں ہونے کے بعد خارجہ پالیسی کی ایک اہم فتح عطا کی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاھو نے اتوار کو دعوی کیا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کو عرب ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لئے فلسطینیوں کی طرف سے حاصل کردہ مقبوضہ اراضی سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔