شام کی پارلیمنٹ کے اسپیکر حمود صباغ نے بدھ کے ووٹ سے حتمی نتائج کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسد نے 95.1 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
اسد کی جیت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ایک ایسے انتخابات میں جہاں حکام نے بتایا تھا کہ 18 ملین ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
لیکن 10 سال پرانے تنازع سے دوچار ملک میں باغیوں یا کردوں کی زیرقیادت فوج کے زیر کنٹرول علاقوں میں ووٹ نہیں ملے۔
کم سے کم 8 لاکھ بے گھر افراد شمال مغربی اور شمال مشرقی شام کے ان علاقوں میں رہتے ہیں۔
50 لاکھ سے زیادہ مہاجرین جن میں زیادہ تر ہمسایہ ممالک میں رہتے ہیں، نے بڑی حد تک اپنی رائے دہی سے پرہیز کیا ہے۔
مزید پڑھیں:
امریکی اور یورپی عہدیداروں نے بھی انتخابات کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تنازع کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس میں بین الاقوامی نگرانی کا فقدان ہے اور یہ تمام شامی باشندوں کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔
شام کے صدارتی کے انتخابات میں بشارالاسد کی چوتھی بار کامیابی کے بعد لوگوں نے جشن منایا۔
اسد کی فتح کا جشن منانے والے محمد الہماسی نے کہا کہ 'ہم اس ملک کی مدد کے لئے گولہ بارود کے خانے کھولتے تھے لیکن اب ہم نے صدر بشار حفیظ اسد کی کامیابی میں مدد کے لئے بیلٹ باکس کھولے ہیں۔'