امریکہ میں سعودی سفیر نے کہا کہ یمن میں سعودی عرب کا واحد ہدف ایک ایسے سیاسی حل تک پہنچنا ہے جو ایک پر امن اور خوشحال ریاست کی بحالی کرے'۔
شہزادی ریما بنت بندر نے کہا کہ 'سعودی عرب نے ہر بین الاقوامی مذاکرات میں حصہ لیا ہے اور جنگ سے متاثرہ ملک میں امن کے حصول کے مقصد سے اقوام متحدہ کے ہر معاہدے کو سراہا ہے'۔
ان کا کہنا ہے کہ 'اس کے باوجود حوثی جارحیت بند نہیں ہوئی ہے اور ان ملیشیا نے اپریل میں اعلان کردہ جنگ بندی پر ردعمل کا اظہار کیا'۔
سعودی سفیر برائے امریکہ شہزادی ریما بنت بندر نے عرب امریکی پالیسی ساز کانفرنس کے دوران کہا 'ہماری سرزمین پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا گیا'۔
انھوں نے کہا 'یہ حوثی اور ان کے ایرانی مددگار ہی ہیں جو ہر معاہدے کو توڑ دیتے ہیں، ہر معاہدہ سے دست بردار ہو جاتے ہیں اور ہماری امداد کو روک دیتے ہیں'۔
سفیر نے بتایا کہ حوثیوں کی جانب سے سنہ 2016 سے اب تک 300 بیلسٹک میزائل فائر کیے جاچکے ہیں، ان میں سے بیشتر شہری اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔
'ہم یمن میں سیاسی حل کی حمایت کرتے رہیں گے لیکن ہمیشہ اپنی قومی سلامتی کا دفاع کریں گے'۔
سعودی سفیر برائے امریکہ شہزادی ریما بنت بندر سعودی سفیر برائے امریکہ شہزادی ریما بنت بندر نے کہا کہ امریکہ یمن کے لئے دنیا کا سب سے بڑا ڈونر ہے اور اسے انسانی ہمدردی اور تعمیر نو کی مدد فراہم کرتا ہے'۔
'ہماری خارجہ پالیسی اس یقین پر مبنی ہے کہ استحکام اور امن سے خوشحالی اور مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ جب زیادہ لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے، تو خوشیاں بھی بڑھ جاتی ہے'۔
'جب لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے اور انہیں بااختیار بنایا جاتا ہے تو انتہا پسندی کے لئے کوئی نہیں سوچ سکتا اور نہ اس کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔
واضح رہے کہ یمن کا تنازعہ سنہ 2014 میں شروع ہوا، جب حوثیوں نے دارالحکومت صنعا اور ملک کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔
اس سے یمن کے صدر منصور الہادی کی حکومت کو اقتدار میں بحال کرنے کے لئے کئی ماہ بعد امریکی حمایت یافتہ عرب فوجی اتحاد کو مداخلت کرنے پر آمادہ کیا گیا۔
- یمن میں خوراک اور غذائی قلت کا بحران:
اس وقت سے تاحال اس جنگ کی وجہ سے لاکھوں افراد کو خوراک اور طبی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے یمن کے بحران کو دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا ہے۔
ایک ڈیٹا بیس پروجیکٹ کے مطابق یمن میں تاحال 112،000 عام شہریوں سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔