اردو

urdu

ETV Bharat / international

نیتن یاہو کا وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کا وعدہ - اسرائیلی وزیر اعظم کا اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کا اعلان

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا کہ اگر وہ انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ مقبوضہ غرب اردن کے ایک سرحدی علاقے کو اسرائیل میں شامل کرلیں گے۔

نیتن یاہو

By

Published : Sep 11, 2019, 9:11 AM IST

Updated : Sep 30, 2019, 4:58 AM IST

آئندہ منگل کو ہونے والے انتخابات سے قبل نتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی حاکمیت کو وادی اردن اور شمالی بحیرہ مردار تک پھیلا ئیں گے۔
انتخابی جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کا دائیں بازور کی بلو اینڈ وائٹ سیاسی جماعت سے کانٹے کا مقابلہ ہے۔

اسرائیل نے سنہ 1967 کی جنگ کے وقت سے غرب اردن پر قبضہ کر رکھا ہے لیکن اسے اسرائیل میں شامل نہیں کیا ہے۔

ٹی وی پر ایک تقریر کے دوران وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’اگر میں اسرائیل کے شہریوں سے ایسا کرنے کے لیے ایک واضح مینڈیٹ حاصل کر لیتا ہوں تو میں اپنے ارادوں کا اعلان کر رہا ہوں جن کا اطلاق اگلی حکومت قائم ہوتے ہی ہو جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مقبوضہ اردن میں قائم تمام یہودی بستیوں کو بھی اسرائیل میں شامل کریں گے لیکن اس کے لیے عوام کو امریکی صدر ٹرمپ کے اس دیرینہ امن معاہدے کا انتظار کرنا پڑے گا جسں میں صدر ٹرمپ اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین دیرپا امن کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

وہیں فلسطینیوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دن غرب اردن کا تمام علاقہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہوگا۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران غرب اردن، مشرقی یروشلم، غزہ اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس نے مشرقی یروشلم کو تو سنہ 1980 اور گولان کی پہاڑیوں کو سنہ 1981 میں عملاً اپنا حصہ بنا لیا تھا، تاہم اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر قبول نہیں کیا گیا تھا۔
امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ اپنے سے پہلے آنے والی امریکی حکومتوں کی پالیسی کے برعکس ان دونوں فیصلوں کو قبول کر چکی ہے۔
غرب اردن کی حیثیت کا فیصلہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کی تہہ تک جاتا ہے۔ اسرائیل نے غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 140 آبادیاں قائم کی ہیں جنھیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیل اس سے متفق نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل میں چھ ماہ میں دوسری بار انتخابات ہو رہے ہیں اور عوامی جائزوں کے مطابق اس بار بھی سخت مقابلے کی وجہ سے اسی طرح کا نتیجہ متوقع ہے جو گذشتہ اپریل میں سامنے آیا تھا۔ اپریل میں انتخابات کے بعد کسی جماعت کو واضح برتری نہ ملنے کی وجہ سے کوئی حکومت نہیں بنا سکی تھی۔

Last Updated : Sep 30, 2019, 4:58 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details