افغانستان میں حکومت سازی کرنے والے طالبان کے ساتھ ہندوستان کا پہلا سرکاری رابطہ منگل کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہندوستانی سفیر دیپک متل اور طالبان کے نمائندے شیر محمد عباس استانک زئی کے درمیان میٹنگ سے ہوا۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق یہ میٹنگ دوحہ میں ہندوستانی ایمبیسی میں طالبان فریق کی درخواست پر ہوئی۔
اس میٹنگ میں متل نے افغانستان میں پھنسے ہندوستانیوں کی حفاظت، ہندوستانیوں کی جلد اور محفوظ واپسی اور افغانی شہریوں بالخصوص اقلیتوں کے ہندوستان ہجرت سے متعلق ترجیحی طور پر ہندوستان کا موقف رکھا۔
یہ بھی پڑھیں:
دیپک متل نے استانک زئی سے کہا کہ ان کے ملک کی تشویش ہے کہ افغانستان کی زمین کو ہندوستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی زمین کا استعمال دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے کسی طور نہیں ہونا چاہیے۔
طالبان کے نمائندے استانک زئی نے متل کو یقین دہانی کروائی کہ ان تمام مسائل پر مثبتیت کے ساتھ توجہ دی جائے گی۔ دوحہ میں ہوئی یہ میٹنگ امریکہ کے 20 برس کے بعد افغانستان سے اپنی فوج کی واپسی کے بعد طالبان حکومت کی تشکیل سے قبل ہوئی ہے۔
دوحہ میں یہ میٹنگ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی میٹنگ ہندوستان کی صدارت میں ہونے کے ایک دن بعد ہوئی۔ کونسل کی میٹنگ میں افغانستان پر ایک تجویز پاس کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ طالبان کو محفوظ دورہ یقینی بنانے اور افغانستان کی زمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے کسی طور استعمال نہ کرنے دینے کی یقینی دہانی پر قائم رہنما چاہیے۔
ہندوستان اگرچہ پہلے بھی طالبان کے رابطے میں رہا ہے، اس نے 12-13 اگست کو دوحہ پریس کانفرنس میں شرکت تھی لیکن وہ بات چیت میں عالمی مذاکرہ کار وفد کے ایک رکن کے طور پر شامل ہوا تھا۔ منگل کے روز کی میٹنگ فریق کے درمیان ہی ہوئی اور اس میٹنگ میں مسٹر متل اور ستانکزئی ہی شریک ہوئے۔ اس میٹنگ میں ہندوستان نے براہ راست طور پر طالبان کو اپنی تشویش سے آگاہ کروایا۔
غور طلب ہے کہ ستانکزئی کا ہندوستان سے پرانے تعلقات ہیں۔ وہ انڈین ملٹری اکیڈمی، دہرادون سے 1980 میں ٹریننگ لے چکے ہیں۔ ستانکزئی نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ طالبان ہندوستان کے ساتھ‘ اچھےتعلقات‘ بہتر بنائے رکھنا چاہتا ہے۔
یو این آئی