سوزی اشکونٹانا مشکل سے بول پاتی ہے یا کھا پاتی ہے۔ دو دن قبل اس سات سالہ بچی کو اس گھر کے ملبے سے نکالا گیا جسے اسرائیل نے فضائی حملوں میں تباہ کر دیا ہے۔
اس چھوٹی سی بچی نے اپنے بھائی، بہنوں اور ماں کی لاشوں کے ساتھ ملبے میں دبے دبے کئی گھنٹے گزارے۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی بمباری سے بچوں کو بڑا صدمہ پہنچا ہے۔
غزہ پٹی کے کچھ لوگوں نے یہ صدمہ اپنی مختصر سی زندگی میں کئی بار دیکھا ہے۔
غزہ: ملبے سے نکلنے والی 7 سالہ فلسطینی لڑکی شدید صدمے میں 12 برسوں کے درمیان اسرائیل اور حماس میں یہ چوتھی لڑائی ہے۔
ہر بار، اسرائیل، حماس کے راکٹ حملوں کو روکنے کے نام پر گنجان آبادی والے غزہ کی پٹی پر بھاری اور اندھادھند بمباری کرتا ہے۔
غزہ شہر پر بڑے بم دھماکے کے بعد اتوار کی صبح اشکونٹانا کا خاندان گھر کے ملبے تلے دب گیا۔ وہیں اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے ذریعہ بنائے گئے سرنگ کے نیٹ ورک کو نشانہ بنارہا تھا۔
اسرائیلی فوج نے اس خاندان کے گھر پر یہ بمباری بغیر کسی وارننگ کے کی تھی۔
ریاض اشکونٹانا نے ایسوسی ایٹ پریس کو بتایا کہ وہ کس طرح ملبے کے نیچے پانچ گھنٹے دبے ہوئے تھے۔ وہ کنکریٹ کے ایک حصے میں پھنسے ہوئے تھے، اپنی اہلیہ اور پانچ بچوں تک نہیں پہنچ سکے۔
انہیں ملبے سے نکالا گیا اور اسپتال پہنچایا گیا۔ ان سے بچوں کی موت کی خبر چھپائی گئی۔ انہوں نے کہا ، "مجھے ایک کے بعد ایک ان سب کی موت کے بارے میں خبر ملی۔"
آخر میں، سوزی کو زندہ لایا گیا، جو اس کی تین بیٹیوں اور دو بیٹوں میں سے دوسری بڑی لڑکی ہے اور بچوں میں وہی اکلوتی زندہ بچی ہے۔
ماہر امراض اطفال کے ڈاکٹر زہیر الجارو نے کہا کہ ''اگرچہ ملبے کے نیچے سات گھنٹوں تک رہنے کے دوران شوزی پر جسمانی دباؤ کم تھا، لیکن یہ کمسن بچی "شدید صدمے اور اذیت کی زد میں تھی۔" ۔
الجارو نے کہا کہ شدید لڑائی اور بمباری کے درمیان اسپتال اس معصوم کو نفسیاتی علاج دینے سے قاصر ہے۔
انہوں نے منگل کو کہا، صرف آج کے دن، اس بچی نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔ آج اسپتال سے اجازت ملنے کے بعد وہ تھوڑی دیر کے لیے اسپتال کے باہر گئی اپنے رشتہ کے بہن بھائیوں کو دیکھا۔
آج جب سوزی کے والد میڈیا سے بات کر رہے تھے، تو وہ ٹھیک اپنے والد کے بغل میں موجود بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اور خاموشی سے کمرے میں موجود سبھی لوگوں کے چہروں کو پڑھنے کوشش کر رہی تھی لیکن اس نے شاذ و نادر ہی کسی سے آنکھ ملائی۔
جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ بڑی ہو کر کیا بننا چاہتی ہے تو وہ پیچھے مڑ گئی۔
جب اس کے والد نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے تو وہ لڑکی زور سے سسکیاں بھرنے لگی۔
42 سالہ ریاض اشکونٹانا جو بطور ویٹر کام کر رہے تھے، ابھی حال ہی میں انہوں نے کورونا کی وجہ سے لگے لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں ملازمت چھوڑنی پڑی۔ انہوں نے کہا کہ سوزی ہوشیار اور تکنیک سیکھنے والی لڑکی ہے اور اسے اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹ سے محبت ہے۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ ان حملوں میں اتوار کے روز غزہ شہر میں پھیلی حماس کی سرنگوں کو نشانہ بنایا۔
جنگی طیاروں نے الوحدہ اسٹریٹ کو نشانہ بنایا، جو شہر کے سب سے مصروف تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ یہ گلی اپارٹمنٹس کی عمارتوں کے ساتھ دکانوں، بیکریوں، کیفوں اور زمینی منزل پر الیکٹرانکس کی دکانوں پر مشتمل ہے۔
اسرائیلی بمباری میں تین عمارتیں گر گئیں اور کم از کم تین خاندانوں کے 42 افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں 10 بچے اور 16 خواتین شامل ہیں۔
غزہ کے محکمہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق، 10 مئی کو اسرائیل اور حماس کے مابین تازہ ترین تنازع شروع ہونے کے بعد سے اب تک غزہ میں 217 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں کم از کم 63 بچے بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی میں حماس کے راکٹوں سے 12 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔