فلسطین کی حریف جماعتوں الفتح اور حماس نے برسوں سے جاری اختلافات کر بھلا کر 14 برس بعد انتخابات کرانے پر اتفاق کر لیا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کی پارٹی الفتح کا مغربی کنارے پر کنٹرول ہے، جب کہ ان کی حریف جماعت حماس (سربراہ اسماعیل ہانیہ) غزہ کے علاقے پر برسوں سے حکومت کررہی ہے۔
اس حوالے سے فریقین کے درمیان ترکی کے شہر استنبول میں دو روز سے مذاکرات جاری تھے، جس کے بعد یہ اعلان سامنے آیا۔
بتایا جارہا ہے کہ فلسطین کے حوالے سے اس خوش آیند پیش رفت کی وجہ حال ہی میں خلیجی ممالک متحدہ عرب امارات اور بحرین کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے باعث حماس اور الفتح ایک متحدہ محاذ بنانے پر متفق ہوئے ہیں۔
حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے۔
سامی ابو زہری نے ٹوئٹر کے ذریعہ اطلاع دی ہے کہ 'ہم استنبول میں حماس اور فتح کے وفود کے اجلاس سے اپنی اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، جو ایک مثبت اور نتیجہ خیز ماحول میں ہوا ہے۔ اس اتفاق رائے کو سیکریٹری جنرل کے قریبی اجلاس میں پیش کیا جائے گا'۔
انھوں نے کہا ہے کہ 'عوامی تحریک مزاحمت اور انتخابات کے ضمن میں پیش کردہ نکات پر دونوں تحریکوں کے مابین اتفاق رائے ہوا ہے'۔
حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے کہا ہے کہ 'اس بار ہم میں حقیقی معنوں میں اتفاق ہوا ہے۔ اختلافات کی وجہ سے ہمارے قومی مفاد کو کافی نقصان پہنچا ہے اور ہم انہیں ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں'۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ الفتح کے ترجمان جبریل رجوب نے کہا کہ 'صدر محمود عباس انتخابات کی تاریخ سے متعلق جلد ہی ایک بیان جاری کریں گے'۔
انہوں نے بتایا کہ 'ہم پہلے پارلیمانی انتخابات اور پھر صدارتی انتخابات کرانے پر متفق ہو گئے ہیں، جس کے بعد تنظیم آزادی فلسطین کی مرکزی کونسل تشکیل دی جائے گی'۔
فلسطینی عوام اپنے ملک کی خود مختاری کے خواہاں ہیں واضح رہے کہ سنہ 2006 میں حماس نے عام انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد سنہ 2007 میں الفتح کے ساتھ اس کے شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔
تب ہی سے دونوں جماعتوں میں کئی بار صلح کرانے کی کوشش کی گئی، تاہم کئی بار اتفاق کے باوجود کوئی بھی معاہدہ دیر پا ثابت نہیں ہوا۔
اطلاعات کے مطابق پرامن اتحاد کے لیے فریقین کے درمیان 2012 میں قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا اور پھر کئی حلقوں کی کوششو ں کے سبب دو برس بعد ایک متحدہ حکومت کے قیام کی بھی کوشش کی گئی، تاہم یہ مخلوط حکومت بھی کچھ ہی وقت قائم رہ سکی اور پھر اس کا شیرازہ بکھر گیا۔