افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شمال میں محض ایک گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد یہ مقام تقریباً 20 سالوں سے امریکی فوجی طاقت کا اہم مرکز رہا ہے، جو جہار جانب سے فرنسنگ اور بلاسٹ چہاردیواری سے گھرا ہوا ہے۔
اس کی شروعات 9/11 کے حملوں کا بدلہ لینے کے لئے امریکی مہم کے طور پر دیکھی جاتی ہے، جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے پہلے ہی بگرام سے 50 فیصد سے زیادہ تیاری کرلی ہے اور باقی تیزی سے کام کیا جا رہا ہے تاکہ اس سائٹ کو پوری طرح خالی کیا جاسکے۔
امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر 4 جولائی تک امریکی فوج کا مکمل انخلا ہوجائے گا۔
اس کے بعد افغان فوج بگرام ایئر فیلڈ کو اپنے قبضے میں لے لے گی اور طالبان کے خلاف اس کی مسلسل لڑائی میں استعمال کرے گی۔
امریکی فوجی انخلا سے ملک میں کئی سوالات بھی پیدا ہوں گے۔ یہ دوسرا موقع پر جب افغانستان پر حملہ آور آئے اور اب بگرام سے واپس جا رہے ہیں۔ چند ہی دنوں میں آخری امریکی فوج بگرام ایئر فیلڈ سے رانہ ہوں گے۔
بگرام میں امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے ریٹائرڈ افغان جنرل سیف اللہ صفی کا کہنا ہے کہ بگرام کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
جنرل صفی کا کہنا ہے کہ "بگرام افغان فضائیہ کے لئے ایک بہت اچھے اور مضبوط اڈے کے طور پر کام میں لایا جا سکتا ہے اور اس کا استعمال کر کے پورے ملک پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر امن نہ ہوا اور لڑائی جاری رہی تو مجھے یقین ہے کہ مزاحمت کی دوسری لہر بگرام سے شروع ہوگی، جو امن نہں چاہتے ہیں۔''
جب 2001 میں امریکی اور نیٹو فوج نے بگرام کو اپنے قبضے میں لیا تو اس وقت یہ گرتی ہوئی عمارتوں کے کھنڈرات کے طور پر تھا، جس پر راکٹ کے گولے داغے گئے تھے اور اس کا زیادہ تر حصہ تباہ تھا۔
طالبان کو کابل سے بے دخل کرنے کے بعد امریکہ کی زیرقیادت اتحاد نے اپنے تشدد پسند اتحادیوں کے ساتھ مل کر بگرام کی تعمیر نو کے لئے کام کرنا شروع کیا، پہلے عارضی ڈھانچے تیار کئے گئے پھر اسے پختہ کیا گیا۔
یہاں سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں ائیر فیلڈ تعمیر کیا تھا، جب 1979 میں کمیونسٹ حکومت کی پشت پناہی کرنے کے لئے سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس نے اسے اپنے مرکزی اڈے کے طور پر تیار کیا جہاں سے وہ اس ملک پر اپنے قبضے کا دفاع کر سکتا تھا۔
10 سال تک روس نے امریکی حمایت یافتہ مجاہدین کا مقابلہ کیا، صدر رونالڈ ریگن نے آزادی پسند شدت پسندوں کو ہرایا، اور انہوں نے انہیں سرد جنگ کی آخری لڑائی میں فرنٹ لائن فورسز کے طور پر محسوس کیا۔
سوویت یونین نے 1989 میں افغانستان سے انخلا کے لئے بات چیت کی۔ تین سال بعد ماسکو کی حامی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور مجاہدین نے اقتدار حاصل کر لیا اور اس دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
اس دوران طالبان نے 1996 میں کابل کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
جنرل صفی نے بتایا کہ روس نے انخلا کے دوران اپنا سارا سامان یہاں چھوڑ دیا تھا۔
جنرل صفی نے بتایا کہ "جب سوویت نے ملک چھوڑا، تو انہوں نے اپنے تمام اضافی سامان یہاں چھوڑ دئے، خاص طور پر ایئر فورس کے لئے ہتھیار، بھاری ہتھیار، اسکارٹ میزائل، چھوٹے ہتھیار، گولہ بارود وغیرہ اور ان سب سامانوں کو کمیونسٹ حکومت کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی فوج کے حوالے کردیا۔"