بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے جنیوا میں بریفنگ کے دوران یمن میں خانہ جنگی کو ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یمن جنگ نے ایک اور شرمناک سنگ میل عبور کیا ہے، جس میں مارچ 2015 میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک 10 ہزار بچے ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں اور یہ روزانہ چار بچوں کے برابر ہے۔
جیمز ایلڈر کے مطابق یہ تعداد اقوام متحدہ کے رپورٹنگ اور مانیٹرنگ آپریشن سے تصدیق شدہ ہیں جن کی تعداد یقیناً حقیقت سے کم ہے کیونکہ کئی بچوں کی اموات اور زخمی ہونے کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یمن میں 15 مارچ 2015 اور 30 ستمبر 2021 کے درمیان ہونے والی لڑائی میں مجموعی طور پر 3،455 بچے ہلاک اور 6،600 سے زائد زخمی ہوئے۔
ایلڈر نے وضاحت کی کہ وہ پیر کو یمن کے ایک مشن سے واپس آئے تھے جہاں انہوں نے متعدد بچوں کو دیکھا جو ملکی خانہ جنگی، معاشی تباہی اور ٹوٹ پھوٹ کے شکار سماجی اور صحت کے سہولیات کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے کم امدادی پروگراموں سے دوچار ہیں۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ پانچ میں سے چار بچوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایلڈر نے نشاندہی کی کہ یمن میں 11 ملین سے زائد بچوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے ، جبکہ 400،000 بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 20 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، 40 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہونے کے قریب ہیں۔
جنگ کے علاوہ ، ایلڈر نے کہا کہ بہت سے یمنی کھانے کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اسے خریدنے کے لیے پیسوں کی کمی کی وجہ سے بھی بھوکے ہیں۔