اردو

urdu

ETV Bharat / international

افغانستان میں کورونا کیسز میں اضافے کے درمیان ویکسین کی عدم دستیابی

اس دوران بیشتر افغانی اب بھی وائرس کی حقیقت پر سوال اٹھاتے ہیں یا ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا ایمان ان کی حفاظت کرے گا اور ماسک اور معاشرتی فاصلے کے اصول پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہیں اور جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

Afghanistan
Afghanistan

By

Published : Jun 5, 2021, 1:58 PM IST

افغانستان کووڈ 19 کے انفیکشن میں اضافے کا مقابلہ کر رہا ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ملک کو اپریل تک دی جانے والی 3 ملین کووڈ ویکسین کی خوراک اب اگست تک نہیں دی جا سکے گی، حالانکہ افغانستان میں صحت افسران مسلسل ٹیکے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

افغانستان میں کورونا کیسز میں اضافے کے درمیان ویکسین کی عدم دستیابی

وزارت صحت کے ترجمان غلام دستگیر نظری نے رواں ہفتے کہا کہ "ہم ایک بحران کے عالم میں ہیں" عالمی سطح پر ویکسین کی تقسیم پر گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غریب ممالک اپنے لوگوں کے لئے پریشان ہیں۔

پچھلے ایک مہینے کے دوران کورونا کے نئے کیسز نے افغانستان کے صحت کے نظام کو انتباہ دے دیا ہے، جو پہلے ہی مسلسل جنگ کے باعث کمزور ہو چکا ہے۔

اس دوران بیشتر افغانی اب بھی وائرس کی حقیقت پر سوال اٹھاتے ہیں یا ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا ایمان ان کی حفاظت کرے گا اور ماسک اور معاشرتی فاصلے کے اصول پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہیں اور جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

صرف ایک ہفتہ قبل تک حکومت نے بڑے پیمانے پر اجتماعات پر بھی پابندی عائد نہیں کی تھی۔ وائرس کے نئے اسٹرین ڈیلٹا نے افغانستان میں انفیکشن کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ اس دوران افغانستان کے دارالحکومت سمیت ملک کے 16 صوبے وائرس سے متاثر ہیں۔

اس ہفتے رجسٹرڈ نئے کیسز کی شرح یکم مئی کے 178 کے مقابلے میں ایک دن میں 1،500 تک ہو گئی ہے۔

اسپتال میں بستر خالی نہیں اور خدشہ ہے کہ آکسیجن کی فراہمی میں کمی کے باعث اسپتالوں میں آکسیجن کی قلت ہوجائے گی۔

وزارت صحت کے ترجمان غلام دستگیر نظری کا کہنا ہے کہ "ہم ایک بحران کے شکار ہیں۔ صحت خدمات کی فراہمی میں بہت سارے چیلنجز ہیں۔ بدقسمتی سے آکسیجن کی قلت کا خطرہ ہے، اگرچہ پوری حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کسی مریض کی آکسیجن کی کمی کو وجہ سے موت نہ ہو"

جمعہ کے روز وزیر خارجہ حنیف اتمار نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ افغان سفیروں کو قریبی ممالک میں ہنگامی طور پر آکسیجن حاصل کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وبائی مرض سے افغانستان میں مجموعی طور پر 78،000 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ انفیکشن سے تین ہزار سات سو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے کیونکہ بہت سارے معاملوں میں مریض اسپتال تک نہیں پہچ پاتے ہیں اور گھر پر ہی دم توڑ دیتے ہیں اور حکومت ان کی موت کا اندراج اس میں نہیں کرتی ہے۔

صرف پچھلے مہینے میں مثبت کووڈ جانچ کی شرح ملک کے کچھ حصوں میں تقریباً 8 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد ہوگئی ہے۔

اس دوران ملک میں دو ہفتوں کے لئے اسکول، یونیورسٹیاں اور کالج بند کردیئے گئے ہیں۔ اور شادی خانوں کو بھی بند کردیا گیا ہے، جو وبائی امراض میں بغیر کسی رکاوٹ کے چل رہے تھے۔ لیکن ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے جب کسی نے گلیوں میں ماسک پہنا ہو، یہاں تک کہ سرکاری دفتروں میں ماسک لازمی ہونے کے باوجود لوگ اسے استعمال نہیں کرتے ہیں۔

بھارت سے روزانہ 10 سے زیادہ پروازیں افغانستان پہنچتی ہیں جو طلبہ اور ایسے افراد سے بھری ہوئی ہوتی ہیں جو طبی معالجے کے لئے بھارت گئے تھے۔

نظری نے کہا کہ پروازوں پر پابندی عائد کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ بہت سارے افغانی بھارت میں پھنسے ہوئے ہیں اور حکومت شہریوں کو اپنے ملک میں دوبارہ داخلے سے نہیں روک سکتی ہے۔

ویکسینز کے لئے افغانستان نے اب تک بھارت سے ایسٹرا زینیکا خوراک کے عطیہ اور پھر چین سے سینوفارم کی خریداری پر انحصار کیا ہے۔

ملک میں 6 لاکھ افراد نے ٹیکے کی پہلی خوراک حاصل کی ہے یعنی 36 ملین کی آبادی کا محض 1.6 فیصد۔

نظری نے کہا کہ گذشتہ ماہ وزارت صحت کو ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ فراہمی کی پریشانیوں کے سبب 30 لاکھ ویکسین خوراکوں کی متوقع کھیپ اگست تک نہیں پہنچ سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں صرف 35،000 ویکسین کی خوراکیں باقی ہیں۔

دنیا بھر کے غریب ممالک ویکسین حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک اپنی آبادی کے اہم حصوں کو ٹیکے لگانے میں کامیاب رہے ہیں۔

کوویکس مہم کے تحت اقوام متحدہ ویکسین کی عدم مساوات کو روکنے کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اسے ایک بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا، جب اس کے سب سے بڑے فراہم کنندہ، سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے گذشتہ ماہ اعلان کر دیا کہ وہ سال کے آخر تک کوئی ویکسین برآمد نہیں کرے گا۔

افغان جاپان کمیونیکیبل بیماریوں والے کابل کے واحد اسپتال میں 174 بیڈ ہیں لیکن یہ سبھی بیڈ مریضو ں سے بھرے ہوئے ہیں۔

افغان جاپان کمیونیکیبل بیماریوں کے اسپتال کے منتظم ڈاکٹر زلمئی ریشتین نے کہا کہ "مریض دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ افغانستان میں تیسری لہر شروع ہوگئی ہے۔ پڑوسی ممالک کے مقابلے میں جہاں وائرس عروج پر ہے، یہاں یہ اتنا برا نہیں ہے لیکن ہماری اطلاعات مریضوں میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں۔"

وزارت صحت نے مزید تین اسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لئے تقریباً 350 مزید بستر مختص کئے لیکن وہ بھی پر ہو گئے۔

اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر زلمئی ریشتین نے بتایا کہ ہر روز افغان جاپان اسپتال میں کورونا سے تین یا چار افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔

احتیاطی تدابیر اور حفاظتی پروٹوکول پر عمل کرنے سے عوام کے انکار کے باعث ڈاکٹر جدوجہد کر رہے ہیں۔

وزارت صحت نے حفاظتی ٹیکے لینے اور کورونا وائرس کے متعلق احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے لئے لوگوں سے اپیل کرنے کے لئے علما، ممتاز مذہبی شخصیات اور دیگر اہم لوگوں کو تقرر کیا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details