بتیس سالہ خاتون ڈاکٹر امانی بلور نے شام میں حکومت مخالف گروپز والے علاقے میں سرکاری افواج کے محاصرے کے دوران زخمی ہوجانے والوں کا علاج کیا اور معصوموں کی جان بچانے کی نئی تاریخ رقم کی۔
ایک گھنٹے اور 47 منٹ پر مشتمل ڈاکیومنٹری 'دا کیو' کی نامزدگی کے لیے ڈاکٹر امانی اتوار کو لاس اینجلس میں ہونے والے آسکرز کی تقریب میں شرکت کے لیے ویزا حاصل کر چکی ہیں۔
آسکر نامزدگی کےحوالے سے ڈاکٹر امانی کا کہنا ہے کہ وہ پُرامید ہیں کہ ان پر بننے والی ڈاکیومنٹری شام میں گزشتہ 9 سال سے جاری خانہ جنگی کی طرف عالمی دنیا کی توجہ مبذول کروانے میں کامیاب رہے گی۔
ڈاکیومنٹری فلم میں ڈاکٹر امانی کو موضوع بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ مشرقی غوطہ میں زیر زمین دا کیو نامی ایک اسپتال چلاتے ہوئے وہ کیسے جنگ کے ماحول میں زخمی بچوں کو تحفظ دینے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔
خواتین کی قیادت میں چلنے والے اسپتال کو دکھاتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مقامی لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اپنی زندگی کی پرواہ کئے بغیر باہمت خواتین انسانیت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
نہ صرف ان کی جدوجہد بلکہ بطور خاتون انہیں یہ کام کرنے میں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
امانی کا کہنا ہے کہ ابھی تک وہ ان ہزاروں مریض بچوں کے صدمے سے باہر نہیں آسکیں جن کا وہ علاج کر چکی ہیں۔
ڈاکٹر امانی کا کہنا ہے کہ دا کیو میں ان کا سب سے مشکل اور کٹھن وقت اگست 2013 کا ایک دن تھا جب زہریلی گیس کے حملے میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 426 تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں آج بھی یاد ہے کہ اس دن دا کیو اسپتال میں ہر جگہ لاشیں بکھری پڑی تھیں، مزید لاشیں رکھنے کی جگہ نہیں تھی تو ہم نے لاشوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیا تھا۔