ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کے شوہر، ڈیوک آف ایڈنبر شہزادہ فلپ کی وفات پر عالمی رہنماوں نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے رنج و غم کا اظہار کیا ہے-
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہزادہ فلپ لاتعداد نوجوانوں کے لیے ایک مثال تھے۔ انھوں نے شاہی خاندان اور شہنشاہیت کو چلانے میں مدد دی تاکہ وہ ایک ایسا ادارہ بنا رہے جو کہ ہماری قومی زندگی کے توازن اور خوشی کے لیے بلاشک و شبہ کلیدی اہمیت کا حامل ہو۔
انہوں نے کہا 'جب انھیں ڈیوک کی وفات کی خبر ملی تو انھیں ’شدید افسوس ہوا۔‘ ’شہزادہ فلپ نے برطانیہ کی کئی نسلوں، پورے کامن ویلتھ اور پوری دنیا سے محبت سمیٹی'۔
بورس جانسن نے اس سب سے طویل عرصے تک قائم رہنے والے شاہی جوڑے میں ڈیوک کے کردار کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور یہ بھی یاد کیا کہ شہزادہ فلپ دوسری عالمی جنگ میں لڑنے والے ان آخری افراد میں سے تھے جو اب تک زندہ رہے۔ جانسن نے کہا کہ ’اس تنازع سے انھوں نے خدمت کرنے کا جذبہ سیکھا جس کا اطلاق انھوں نے جنگ کے بعد کے زمانے میں کیا۔‘
آرک بشپ آف کینٹربری جسٹن ویلبائے نے کہا ہے کہ ’انھوں (پرنس فلپ) نے ہمیشہ دوسروں کے مفادات کو اپنے اوپر ترجیح دی، اور ایسا کرتے ہوئے، مسیحی اقدار کی بہترین مثال پیش کی۔‘
ان کے مطابق شہزادہ فلپ نے ’ملکہ برطانیہ کے دور میں بہت اہم خدمات پیش کیں۔‘ انھوں نے ڈیوک کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ اس سوچ میں مکمل طور پر یقین رکھتے تھے کہ جو کردار ملکہ نبھا رہی ہیں وہ انتہائی اہم ہے اور ان کی اس حوالے سے مدد کرنا ان کا فرض ہے۔‘
بی بی سی کے شاہی امور کے نامہ نگار نکولس وچیل کا کہنا ہے کہ ’یہ پوری قوم کے لیے اداسی کا لمحہ ہے‘ اور ’خاص طور پر یہ ملکہ برطانیہ کے لیے اداسی کا لمحہ ہے جنھوں نے اپنے شریک حیات کو کھویا جو 73 برس ان کے ساتھ رہے۔ یہ اس سے کہیں طویل عرصے کا ساتھ ہے جو ہم سوچ بھی سکتے ہیں۔‘