امریکی فوج انہیں افغانستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں تلاش کرتی رہی۔
یہ انکشاف ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی جن کا نام بیٹے ڈیم ہے کی نئی کتاب 'دی سیکریٹ لائف آف ملا عمر' میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکی حکام یہ سمجھتے رہے تھے کہ وہ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔
وہیں نئے انکشافات کے بعد برطانوی میڈیا نے اسے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی شرمناک ناکامی قرار دیا ہے۔
صحافی، بیٹے ڈیم نے لکھا ہے کہ ملا عمر افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے ایک اہم فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے۔
وہ امریکی فوجی اڈے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے فوجی تعینات تھے۔
ڈچ صحافی بیٹے ڈیم نے اپنی کتاب کی تحقیق میں پانچ سال صرف کیے جس کے دوران انھوں نے متعدد طالبان رہنماؤں اور ممبران سے گفتگو کی۔ انھوں نے جبار عمری سے بھی گفتگو کی جنھوں نے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملا عمر کے باڈی گارڈ کے طور پر خدمت انجام دی جب وہ زیر زمین چلے گئے۔
صحافی بیٹے ڈیم لکھتی ہیں کہ جبار عمری کے مطابق انھوں نے ملا عمر کو 2013 تک پناہ دی تھی جب طالبان رہنما بیماری کے سبب انتقال کر گئے۔
کتاب کے مطابق، امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے ملا عمر کو امریکی اڈے کے قریب خفیہ کمروں میں پناہ دی گئی تھی۔ ملا عمر کے سر کی قیمت امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔
صحافی نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے۔
اس کے بعد انھوں ایک دوسرے مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے صرف تین میل کے فاصلے پر ایک اور امریکی اڈہ تھا جہاں 1000 فوجیوں کا قیام تھا۔
صحافی بیٹے ڈیم کہ مطابق انھیں بتایا گیا کہ ملا عمر خبروں کے حصول کے لیے بی بی سی کی پشتو سروس کا استعمال کیا کرتے تھے۔