فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ ان کی لڑائی شدت پسندی کے خلاف ہے اسلام کے خلاف نہیں۔ برطانوی اخبار 'فنانشل ٹائمز' کے ایک مضمون کا جواب دیتے ہوئے میکرون نے کہا کہ ان کے بیان کو غلط انداز میں پیش کرنے کا نتیجہ ہے کہ اخبار کی ویب سائٹ نے مواد ہی ہٹا دیا۔
واضح رہے کہ فنانشل ٹائمز نے مذکورہ مضمون کو ویب سائٹ سے ہٹانے کے بعد اس کی جگہ تصحیح شائع کی، کیوں کہ مضمون میں 'حقائق کی غلطیاں تھیں'۔
ایمانوئل میکرون نے کہا کہ برطانوی اخبار نے اُن پر 'فرانسیسی مسلمانوں کو انتخابی مقاصد کے لیے بدنام کرنے اور خوف اور شبہات کی فضا کو فروغ دینے' کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے اخبار میں مدیر کے نام خط کالم میں لکھا ہے کہ وہ کسی کو یہ دعوی نہیں کرنے دیں گے کہ فرانس، یا ان کی حکومت مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کو فروغ دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'بعض اضلاع اور انٹرنیٹ پر بنیاد پرست اسلام سے وابستہ گروہ ہمارے بچوں کو جمہوریت سے نفرت کا درس دے رہے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے قوانین کو نظر انداز کریں اور یہی وہ چیز ہے جس کے خلاف فرانس نبرد آزما ہے، لڑائی اسلام کے خلاف نہیں۔ ہم دھوکہ دہی ، جنونیت ، پرتشدد انتہا پسندی کی مخالفت کرتے ہیں۔ مذہب کی نہیں'۔
انہوں نے کہا کہ حکومت فرانس میں چرچ اور ریاست کو باضابطہ طور پر الگ کرنے والے 1905 کے قانون کو مستحکم کرنے کے لیے دسمبر میں ایک بل پیش کرے گی۔
انہوں نے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ پر سخت کنٹرول کا اعلان کیا۔