شام کے شہر ادلب میں جنگ بندی کا اعلان کے ساتھ ہی مشترکہ مقاصد کے ساتھ ترکی اور روس کی جانب سے سیکیورٹی راہداری کے قیام پر اتفاق کیا گیا۔
یہ اعلان ماسکو میں دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان تقریبا چھ گھنٹے طویل ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
مقامی وقت کے مطابق یہ جنگ بندی آدھی رات کو شروع ہوئی ہے اور شامی حکومت کی پیش قدمی کو کمزور کرنے کا دعوی کیا گیا، جس نے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سیکیورٹی راہداری شمال اور صوبہ ادلیب کے راستے سے چلنے والی اسٹریٹجک شاہراہ کے جنوب میں چھ کلومیٹر (3.7 میل) کی ہو گی۔ ترکی اور روس 15 مارچ سے شاہراہ پر مشترکہ گشت شروع کریں گے۔
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ جنگ بندی کے نفاذ کے لئے کونسا طریقہ کار نافذ کیا جائے گا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے سربراہ اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ 'اس عمل میں ترکی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کہیں بھی اور پوری طاقت کے ساتھ حکومت کے کسی بھی حملوں کا منہ توڑ جواب دے سکتا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ 'جب تک شامی بحران میں پائیدار امن حاصل نہیں ہوتا، اس وقت تک ملک کی علاقائی سالمیت اور سیاسی اتحاد کو یقینی بنانا مشکل ہے۔ ترکی اپنے تمام اقدامات کو جاری رکھنے کا پابند ہے'۔
روس اور ترکی کے مابین سنہ 2017 میں آستانہ اور 2018 میں سوچی میں ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں 'ادلب ڈی ایسکلیشن زون' کی تشکیل دی گئی، جس کے بعد شام کے کچھ علاقوں کو جنگی کارروائیوں کے لیے استعمال نہ کرنے کے لیے کہا گیا۔
اطلاعات کے مطابق جنگ بندی کے بعد شامی حکومت نے حزب اختلاف کے آخری محاصرہ کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا، جسے روس کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے جواب میں ترکی نے اپنی فوج متحرک کردی اور علاقے میں کمک بھیج دی۔ گذشتہ ہفتے حکومت کے ایک حملے میں کم از کم 33 ترک فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔