اردو

urdu

ETV Bharat / international

بریگزٹ کے پس منظر میں پھر سے برطانوی انتخابات

کئی برس سے بریگزٹ کا حساس معاملہ برطانوی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔آئندہ ماہ ملک میں پھر انتخابات منعقد ہوں گے۔ بھارت کے لیے بریگزٹ کا کیا رول ہے اور یہ کس حد تک برطانوی پالیسی پر اثر انداز ثابت ہوگا، اس پر سابق سفارتکار ویشنو پرکاش نے ای ٹی وی بھارت کیلئے خصوصی تجزیہ تحریر کیا ہے۔

By

Published : Nov 10, 2019, 8:10 PM IST

بریگزٹ کے پس منظر میں پھر سے برطانوی انتخابات

کنزرویٹیو پارٹی کی وزیر اعظم تھریسامے کو اپنے پیش رو ڈیوڈ کیمرون سے معمولی اکثریت (650 ارکان کی پارلیمان میں 330 ممبر) ورثے میں ملی تھی۔ کیمرون نے بریگزٹ رائے شماری کے منفی نتیجے کے پس منظر میں استعفیٰ دیا تھا۔ اپنی حالیہ کتاب، فار دی ریکارڈ، میں وزیر اعظم کیمرون لکھتے ہیں کہ انہیں سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ جن لوگوں نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کی حمایت کی تھی، انہیں ناکامی ہوئی، جس نے بالآخر ملک کو تقسیم کردیا، برطانوی حکومت کو مفلوج کیا اور ملک کو اس مسلسل خطرے میں ڈال دیا کہ وہ یورپی یونین سے کوئی معاہدہ طے کئے بغیر علیحدہ ہوجائے۔

اندازہ یہ لگایا گیا تھا کہ تھریسامے بریگزٹ کی مخالفت میں ووٹرز سے ایک بڑا مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گی جس سے وہ با آسانی بریگزٹ مذاکرات میں مضبوطی سے اپنی بات رکھ سکیں گی۔لیکن تھیرسامے نے طے شدہ انتخابات کی تاریخ سے تین برس قبل ہی ضمنی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔جس کے نتیجے میں مشتعل ووٹرز نے تھریسا کی جھولی میں 13 سیٹوں کا خسارہ دیا اور انہیں ایک غیر مستحکم اقلیتی حکومت فراہم کی۔

بریگزٹ مسئلہ نے پورے برطانیہ میں سیاسی عدم استحکام پھیلانے کا کام کیا ہے۔ جو طاقتور عہدیدار یوروپی یونین سےعلیحدگی اختیار کرنے کے حق میں ہے ان کے اندازہ سے یورپی یونین نے برطانوی خودمختاری پر تجاوز کیا ہے جس پر ہمیں پھر سے دعوی کرنے کی ضرورت ہے۔وہیں اس کے برعکس اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ بریگزٹ کی سخت مخالف ہیں۔لیکن برطانوی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسا کی یوروپی یونین کو چھوڑنے کی تجویز کو تین مرتبہ مسترد کردیا، یہی وجہ تھی کہ انہیں بھی رواں برس وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔

بعد ازاں کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما اور بریگزٹ مہم کو لیڈ کرنے والوں میں پیش رہنے والے بریگزٹ کے حامی بورس جانسن کو 24 جولائی کو وزیراعظم بنایا گیا۔بروسیلس سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے برطانیہ کو یوروپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے سلسلے میں مہم کی شروعات کی ۔لیکن وہیں 17 اکتوبر 2019 کو برطانیہ کا یوروپی یونین کے ساتھ رہنے والے معاہدہ پر انہوں نے کہا کہ 'یہ معاہدہ ہمارے ملک کے لیے بہتر ہے'۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ یوروپی یونین میں شامل کردہ ہمارے دوستوں کے لیے بھی اچھا ہوگا۔بہر حال، سبھی حزب اختلاف جماعتیں، اس معاہدے کی مخالفت کررہے ہیں جس میں ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی( ڈی یو پی) بھی شامل ہے ۔وہیں برطانیہ کی سبھی سیاسی جماعتیں 12 دسمبر کو ہونے والی عام انتخابات کی تیاریاں کررہی ہیں۔واضح رہے کہ یہ عام انتخابات موسم سرما میں ہونے والے تھے۔

اگر ہم بھارت کی بات کریں تو بھارت کے لیے بریگزٹ کا کیا رول ہے اور یہ کس حد تک برطانوی پالیسی پر اثر انداز ثابت ہوگا۔خیال رہے کہ وزیراعظم تھریسامے نے گذشتہ برس جولائی کو اپنے بھارت کے دورے کے دوران کہا تھا کہ 'بھارت اور برطانیہ کے مابین اسٹراٹجک شراکت داری تشکیل دینے کے بعد ہمیں مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔انہوں نے کہا تھا کہ اگر برطانیہ یوروپی یونین سے علیحدگی اختیار کرتا ہے اور بھارت ہماری طرف رخ کرتا ہے تو اس سے ہمیں مستقبل میں ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔'لیکن اس کے برعکس بھارتی طلباء اور پیشہ وار طبقے کو ویزا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس میں نرمی کی ضرورت ہے۔برطانیہ میں داخل ہونے اور ملازمت میں عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے بھارتی طلباء کی تعداد 2010 میں 39،090 سے کم ہوکر 2016 اور 2017 کے درمیان 16،550 ہوگئی ہے۔


وہیں دوسری طرف، کنزرویٹو پارٹی کا رجحان بھارت کی طرف ہے۔اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران تین مرتبہ بھارت کا دورہ کیا تھا(جولائی2010، فروری 2013، اور نومبر 2013)۔ساتھ میں جب نومبر 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے لندن کے ویمبلے اسٹیڈیم میں بھارتی تارکین وطن سے خطاب کیا تھا تب ڈیوڈ کیمرون بھی اس تقریب میں ان کے ساتھ موجود تھے ، اس بارے میں ڈیوڈ کیمرون لکھتےہیں کہ 'خطاب میں مودی سے تعارف کروانے سے پہلے میں نے اس تقریب میں موجود 60 ہزار سامعین سے کہا تھا کہ میں نے تصور کیا ہے کہ ایک دن بھارتی نژاد برطانوی 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں وزیر اعظم کی حیثیث سے شرکت کریں گے، اس کے بعد وہاں موجود شائقین کا جو ردعمل ملا وہ ناقابل یقین تھا۔اسٹیج میں مودی اور میں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا ، اور میری امید ہے کہ اس کوشش سے برطانیہ دنیا کو اپنی طرف رجوع کرسکے گا۔


اس کے برعکس لیبر پارٹی کے رہنما لارڈ نظیر احمد بھارت کی تنقید کرنے کے عادی ہیں، ان کا تعلق پاکستان مقبوضہ کشمیر ( پی او کے ) سے ہے۔جہاں برطانیہ میں پاکستانی نژاد برطانوی باشندوں کی تعداد 1.1 ملین کے قریب ہے جس میں قریب ایک ملین عوام کا تعلق پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر سے ہے۔یہ لوگ ووٹ بینک کی سیاست میں بھارت مخالف سیاست چلانے سے احتراز نہیں کرتے۔ یہ لوگ نیم خواندہ ہیں اور انگریزی زبان سے سدھ بدھ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر معمولی قسم کے کام کرتے ہیں۔ چونکہ وہ انگریزی میں اسٹریم کا حصہ نہیں بن پاتے اسلئے وہ علیحدہ علاقوں میں بس جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں بڑھتے جماؤ کی وجہ سے وہ کئی حلقہ ہائے انتخاب کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس سودے میں انکا رکن پارلیمان انکا ترجمان بن جاتا ہے۔

اسکی ایک تازہ مثال حال ہی میں سامنے آئی۔ جیرمی کوربن کی قیادت والی لیبر پارٹی نے کشمیر کے حوالے سے ایک 25 ستمبر کے روز ایک ہنگامی تحریک پیش کی جو جانبدارانہ اور بھارت مخالف تھی۔اس تحریک پر کم از کم ایک سو بھارتی انجمنوں نے ردعمل ظاہر کیا اور وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہاں تک کہا کہ انہیں اس تحریک پر افسوس ہے اور اس میں جو (کشمیر پر) مؤقف اختیار کیا گیا ہے وہ لاعلمی پر مبنی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ تحریک ووٹ بینک کے مفادات کے پیش نظر پیش کی گئی ہے۔ کوربن نے تحریک کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ لیبر پارٹی کے جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے تاہم اعتراف کیا کہ تحریک میں استعمال کی گئی زبان کا ایک حصہ بھارت اور برطانیہ نشین بھارتیوں کےمخالف اخذ کیا جاسکتا ہے۔

برطانیہ میں بھارتی نژاد لوگوں کی تعداد قریباً 1.5 ملین ہے۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے اور آسودہ حال ہیں لیکن اسکے باوجود انہیں سیاسی اثر ونفوذ حاصل نہیں ہے۔ یہ شاید کامیابی کا منفی پہلو ہے کیونکہ وہ انگریزوں کے ساتھ گھل مل گئے ہیں اور مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ وہ صورتحال سمجھیں اور اپنے مفادات کی حفاطت کی تدبیر کریں۔ یہ ضروری ہے کہ لیبر پارٹی کو صاف لفظوں میں یہ پیغام بھیجا جائے کہ پاکستانی نژاد آبادی کی طرفداری کرنا انکے لئے مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔

آئندہ انتخابات کی بات کریں تو کنزرویٹو پارٹی کے ذریعہ اوپینین پول میں یہ دیکھایا جارہا ہے اس انتخابات میں وہ فتح حاصل کریں گے۔اس انتخابات میں بریگزٹ اور صحت( نیشنل ہیلتھ اسکیم ) اہم موضوع ہیں اور اس پر ہی انتخابات لڑا جائے گا۔تاہم عوام کی حمایت کسی کو حاصل ہوسکتی ہے اور اوپینن پول میں بتائے گئے اعداد و شمار غلط ثابت ہوسکتے ہیں۔جیسا کہ سنہ 2015 میں توقع کی جارہی تھی کہ وزیر اعظم کیمرون کی زیر قیادت کنزرویٹو پارٹی بڑے پیمانے پر ہارئے گی لیکن وہ ایک واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔آئندہ انتخابات میں کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن ایک بات طئے ہے کہ اس انتخابات میں گہرا مقابلہ ہوگا جو پر جوش ہوگا اور آنے والی کئی برسوں تک یہ برطانوی مقدر کو ایک اہم انداز میں تشکیل دے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details