ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیرون ملک مختلف مقامات سے امریکی افواج کو واپس بلا لیں گے تا کہ ان ممالک کو جنگوں سے آزاد کر سکیں لیکن انہوں نے اپنی طاقت کا استعمال کرکے مشرق وسطیٰ میں پہلے سے موجود مسائل کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔
سنہ 2011 میں ٹرمپ ٹویٹر پر بار بار اس خیال کا اظہار کررہے تھے کہ بارک اوبامہ اقتدار پر بنے رہنے کے لیے ایران کے ساتھ جنگ کریں گے لیکن اب خود وائٹ ہاؤس کے مکین ہونے کی حیثیت سے ٹرمپ، جنہیں مواخذہ کی کارروائی کا سامنا ہے نے تہران پر حملہ کرکے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
سنہ 1998 میں جب اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے خلاف مواخذہ کی کارروائی عروج پر تھی نے یہ کہہ کر عراق پر فضائی حملہ کیا تھا کہ ایسا کرنے سے مستقبل میں جنگ سے بچا جا سکتا ہے، اب ٹرمپ نے ایران کے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار 'میجر جنرل قاسم سلیمانی' کو بغداد ایئر پورٹ پر ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا۔
اس حملے کے جواز میں ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے یہ استدلال پیش کیا کہ دہلی سے لے کر لندن تک کئی شدت پسندانہ حملوں کے پیچھے سلیمانی کا ہاتھ ہونے کے علاوہ وہ مشرق وسطیٰ میں گزشتہ دو دہایئوں سے شدت پسندی کو فروغ دینے کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کررہا تھا، لیکن امریکہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے کہ اس نے شام اور عراق میں داعش کے (آئی ایس آئی ایس) شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے سلیمانی کی مدد لی تھی۔
اوبامہ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ٹرمپ نے آئی ایس آئی ایس کے چیف ابو بکر البغدادی کو ہلاک کرایا، دونوں نجی افراد اور سخت گیر شدت پسند گروپوں کے سربراہ تھے، ان کی ہلاکت کے برعکس امریکہ نے سلیمانی کو ختم کرنے کے لیے ایک انوکھا راستہ اختیار کیا، سلیمانی، ایرانی صدر حسن روحانی کے معتمد خاص ہونے کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں ایران کا دبدبہ بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔
ایران اب سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا انتظار کررہا ہے، امریکہ کی اس کارروائی سے پوری دنیا کو تشویش ہے کیونکہ اس کی اس حرکت کی وجہ سے تناؤ اور کشیدگی میں کافی اضافہ ہوا ہے، یہ حقیقی معنوں میں مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں ایک سنگین صورتحال ہے۔
اپنے دور اقتدار میں ٹرمپ نے دو متنازع فیصلے لئے۔ پہلا یہ کہ اس نے ماحولیات پر پڑ رہے منفی اثرات کو روکنے کے لیے پیرس میں ہوئے معاہدے سے علیحدگی اختیار کی۔ دوسرا ایران کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے سے کنارہ کشی۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنے اور کرنے میں دہرا معیار ہے کیونکہ یہ دونوں معاہدوں میں یکطرفہ طور پر باہر آئی۔
ایران کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے سے باہر نکلنے سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے دو غیر معمولی اقدامات اٹھائے، ان میں سے ایک بیت المقدس کو اسرائیل کا ہے کہہ کر دارلخلافہ تسلیم کرنا کہ اس سے وسطی ایشیا کا بحران حل ہو جائےگا اور دوسرا یہ کہ ایران کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لیے اس ملک سے تیل کے درآمد پر روک۔
گزشتہ برس خلیج میں ایران کے دو تیل ٹینکروں پر حملے اور امریکی بحریہ کے ایک ڈروان کو گرائے جانے کے بعد سے ایران اور امریکہ میں جنگ جیسی صورتحال ہے۔