آج سے ٹھیک 20 برس قبل ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے بھارت کی تاریخ میں ایک خوفناک باب کا اضافہ کر دیا تھا، 20 برسوں کے بعد بھی بھارت میں اسے دردناک کہانی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آخر یہ کون سا حادثہ تھا، جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، یہ سبھی کچھ بتائیں گے اس خاص رپورٹ میں۔
در اصل ائیر انڈیا کا ایک جہاز آج سے 20 برس پہلے ہائیجیک ہو گیا تھا۔ لیکن یہ کیسے ہوا تھا، اور اس کے عوض بھارت کو کتنی بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ آئیے اس کو شروعات سے سمجھتے ہیں۔
تاریخ 24 دسمبر، جمعے کا دن وقت تھا 4 بج کر 39 منٹ شام، اور سال تھا سنہ 1999 جگہ، نیپال کا تربھون انٹرنیشنل ایئرپورٹ۔
ائیر انڈیا کے جہاز آئی سی 814 کو نیپال سے دہلی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس کی پرواز کی سبھی تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔ جہاز کانٹھمانڈو کے 'تِربھون انٹرنیشنل ائیر پورٹ' سے دہلی کے لیے روانہ ہوا، لیکن تبھی جہاز میں 5 ایسے لوگ نمودار ہوئے جو ہتھیاروں سے لیس تھے، انہوں نے جہاز کا روٹ ہی بدل دیا، در اصل جہاز ہائی جیک ہو چکا تھا۔
معاملہ کچھ ایسا تھا کہ جہاز کے اندر پانچوں ہائجیکرز نے اپنی اپنی پوزیشن لے لی، ان میں سے ایک نے کاکپیٹ میں آکر پائلٹ دیوی شرن پر بندوق تان دی، اور ان سے جہاز کو دہلی کے بجائے پاکستان کے لاہور کی طرف موڑنے کو کہا، اس دوران باقی چاروں نے جہاز کے اندر سبھی کو خوف سے نڈھال کر دیا تھا۔
پائلٹ دیوی شرن نے ایندھن کم ہونے کا بہانہ بنایا، اور کہا کہ وہ ایندھن کم ہونے کے سبب لاہور نہیں جا سکتے۔ در اصل دیوی شرن بھارت کی حدود میں ہی رہنا چاہتے تھے تاکہ بھارت کی سکیوریٹی ان کی مدد کر سکے، اسی دوران دیوی شرن نے جہاز کی رفتار 40 فیصد دھیمی کر دی اور ساتھ ہی ایمرجنسی کا بٹن بھی دبا دیا تھا، جس سے جہاز کے ہائیجیک ہونے کی خبر بھارتی انتظامیہ کو پہنچ چکی تھی، اس دوران وہ ہائیجیکرز کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ، وہ پنجاب کے امرتسر ائیر پورٹ پر رُک کر ایندھن لے کر آگے کا سفر طے کر سکیں گے۔
آخر کار جہاز کو 7 بج کر ایک منٹ پر امرتسر ائیر پورٹ پر لینڈ کرایا گیا۔ اس دوران پنجاب پولیس اور اسنیپ شوٹر کی مدد سے جہاز کو ہائجیکرز کے قبضے سے چُھڑایا جا سکتا تھا، لیکن دہلی سے این ایس جی کمانڈوز کو بھیجے جانے کی بات کہی گئی، اور کمانڈوز کے بھیجے جانے تک ایندھن دینے میں تاخیر کی حکمت عملی اختیار کی گئی، لیکن اس تاخیر سے ہایجیکرز کو شک ہونے لگا۔ آخر کار وہ پائلٹ پر بغیر ایندھن لیے ہی جہاز اڑانے کے لیے دباو بنانے لگے، اور 20 سے الٹی گنتی شروع کر دی گئی۔ دیوی شرن کے پاس جہاز کو اڑانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے لاہور ائیرپورٹ کے لیے دوبارہ فلائٹ کو ٹیک آف کر دیا، لیکن پاکستان نے لاہور میں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی، اور ائیرپورٹ کی سبھی لائٹز اور نیوی گیشنز کو بھی بند کر دیا، تاکہ پائلٹ کو رن وے نظر نہ آ سکے۔ پاکستان ہائی جیکنگ اور اس سے ابھرنے والے تنازعے سے خود کو دور رکھنا چاہتا تھا۔
اس دوران ہائجیکرز نے کچھ مسافروں کو چاقو مار کر زخمی کر دیا تھا۔ ان زخمیوں میں رُپِن کتیال نامی 27 سالہ ایک نوجوان تھا، جن کی چند روز قبل ہی شادی ہوئی تھی، اور وہ نیپال میں ہنیمون منا کر بھارت لوٹ رہے تھے، انہیں اس قدر زخمی کر دیا گیا تھا کہ ان کے جسم سے مسلسل خون بہ رہا تھا۔
بالآخر جہاز مسلسل ہوا میں پرواز کرتا رہا۔ اور اس کا ایندھن بہت ہی تیزی سے ختم ہو رہا تھا، تبھی دیوی شرن نے کہا کہ اگر ہمیں لینڈنگ کی اجازت نہ ملی تو ہر حال میں جہاز کریش کر جائے گا، اور ہم سب ہلاک ہو جائیں گے۔
ایسی صورت میں پائلٹ نے لاہور میں اوپر سے کچھ روشنی دیکھنے کے بعد ائیرپورٹ سمجھ کر لینڈ کرنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی جہاز نیچے آیا، پائلٹ کے ہوش اڑ گئے، کیوں کہ وہ ایئر پورٹ نہیں، بلکہ وہ روڈ کی ٹریفک کی روشنی تھی۔ اس طرح کپتان نے دوبارہ جہاز کو اوپر لے لیا، اور ایک بڑا حادثہ ہونے سے بچ گیا۔
لیکن سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ ایندھن بہت کم تھا۔ اور کسی بھی وقت جہاز کریش ہو سکتا تھا۔ تبھی درخواست کے بعد لاہور ائیرپورٹ انتظامیہ نے محض اتنی اجازت دے دی کہ جہاز کو ایندھن بھرنے کا موقع دیا جائے گا، اور فوری طور پر یہاں سے ٹیک آف کرنا ہو گا۔
اجازت ملنے پر جہاز لینڈ ہوا اور ری فِل کے فورا بعد آئی سی 814 دوبارہ ایک انجان سفر پر روانہ ہو گیا۔ ہائیجیکرز نے جہاز دبئی کی طرف موڑنے کو کہا، دیوی شرن کبھی ائیر ٹریفک کنٹرولر کے اشاروں پر کام کیا کرتے تھے، لیکن آج وہ اس قدر مجبور تھے کہ وہ سارا کام ہائیجیکرز کے اشاروں پر کر رہے تھے۔