کورونا وائرس سے متعلق مشرق وسطی کے مختلف ممالک میں گذشتہ ہفتے کے دوران مثبت جذبات کو تقویت ملی ہے۔
عراق کے شمالی علاقے کردستان کے دوہوک میں لوگ کورونا وائرس پر فتح حاصل کرنے کے بعد شہر کی سڑکوں پر جشن منا رہے ہیں۔ اس موقع پر لوگوں نے بڑے پیمانے پر آتش بازی کر کے جشن کو مزید خوشنما بنا دیا۔
انفیکشن کی شرح میں کمی ہونے کے ساتھ اردن کی حکومت نے یہاں پابندیوں میں نرمی برتنی بھی شروع کردی ہے۔ رمضان کے آغاز سے قبل لوگ باہر خریداری کر رہے ہیں۔
کچھ اسی طرح کا نظارہ مصر کا تھا جہاں جمعہ کے روز رمضان سے قبل قاہرہ کے بازاروں میں سوشل ڈسٹنسنگ ندارد رہی۔
سوڈان میں اس وبا کے دوران برتنوں کو پیٹنے اور ہنگامے سے ماحول میں حرارت پیدا ہو گئی۔ سوڈان نے حال ہی میں لاک ڈاؤن کا آغاز کیا ہے۔ اس طرح پولیس کی جانب سے کرفیو کے نفاذ کے بعد سے ہی خرطوم کی سڑکیں بالکل ویران ہو گئی ہیں۔
شمال مغربی شام کے بے گھر ہونے والے ایک کیمپ میں، جہاں اب تک کسی بھی کورونا متاثر کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کو خدشہ ہے کہ نو سالہ خانہ جنگی کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے سبب طبی سہولیات کی کمی ہے اور اس کے پھیلنے سے تباہی کی نوبت آ سکتی ہے۔
ہر ممکن سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ لوگون نے آن لائن تعلیم کی شروعات کے ساتھ ہی کیمپ میں نئی زندگی کا آغاز کیا ہے۔
ایک ہفتہ قبل یروشلم میں عیسائیوں کے سب سے مقدس چرچ ہولی سپلکر میں پادریوں کی موجود گی میں آرتھو ڈوکس ایسٹر کی خدمت انجام دی گئی۔
وہیں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں خواتین نے گھریلو تشدد کی بڑھتی ہوئی شرح کے خلاف احتجاج کیا۔ مانا جا رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے سبب تشدد کے معاملات میں اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیل میں ہیلتھ آرگانائزیشن کی جانب سے متعدد مقامات پر ٹیسٹنگ بوتھ لگائے جا رہے ہیں، تاکہ ملک میں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کر کے کورونا متاثرین کی شناخت کی جا سکے۔
ان سب کے باجود رواں برس مساجد کے بند ہونے اور باجماعت نماز اور تراویح پر پابندی کے سبب اس بار کی عید بہت مختلف ہو سکتی ہے۔