طالبان نے جمعرات کو کہا کہ اس کے رہنماؤں کو بلیک لسٹ میں ڈالنے سے متعلق امریکہ کا موقف دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا ٹویٹ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا کہ ’’ بلیک لسٹ ‘‘ پر امریکی موقف دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امارت اسلامیہ کی کابینہ کے کچھ ارکان یا حقانی نیٹ ورک کے ارکان امریکی بلیک لسٹ میں ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا ٹویٹ مجاہد نے مزید کہا کہ "امارت اسلامیہ اس صورت حال کو دوحہ معاہدے کی واضح خلاف ورزی سمجھتی ہے، جو امریکہ یا افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے۔”
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا ٹویٹ انہوں نے کہا کہ حقانی کا خاندان امارت اسلامیہ کا حصہ ہے اور اس کا کوئی الگ نام اور تنظیم نہیں ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ امریکہ یا دیگر ممالک اشتعال انگیز خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یورپی یونین نے طالبان کی جانب سے اعلان کردہ عبوری حکومت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت جامع نہیں اور مختلف گروہوں کی نمائندگی کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین کے ترجمان نے کہا کہ اعلان کردہ ناموں کے ابتدائی تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ افغانستان کے نسلی اور مذہبی تنوع کے لحاظ سے ایک جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل نظر نہیں آتی جس کی ہم امید کرتے تھے اور جس کا طالبان نے وعدہ کیا تھا۔
یورپی یونین کے 27 ممالک نے طالبان کے ساتھ روابط بڑھانے کے لیے پانچ شرائط رکھی ہیں جس میں سے ایک جامع اور نمائندہ عبوری حکومت کی تشکیل بھی ہے۔ یورپی یونین کے ترجمان نے کہا کہ مستقبل کی عبوری حکومت کی تشکیل میں جامع انداز میں شمولیت اور نمائندگی کی توقع ہے۔
طالبان نے منگل کے روز ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا تھا جس میں خواتین یا غیر طالبان ارکان شامل نہیں ہیں اور ان میں وہ اہم شخصیات شامل ہیں جو اقوام متحدہ کی پابندیوں کے زد میں ہیں یا دہشت گردی کے الزامات میں امریکہ کو مطلوب ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کی عبوری حکومت میں کس کے نام کون سا قلمدان
امریکہ کی قیادت میں ملک سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اب مغربی ممالک اس بات پر سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ مستقبل میں افغانستان سے روابط کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔
یو این آئی