افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک کے زیادہ تر علاقوں میں ہائی اسکول Girls High School during Taliban rule کی طالبات اپنے گھروں پر ہیں، کیونکہ طالبان حکمرانوں نے انہیں کلاس میں جانے سے منع کیا ہے لیکن ہفتوں سے مغربی صوبہ ہرات میں لڑکیاں اسکول کے کلاس رومز میں واپس لوٹ چکی ہیں، کیونکہ اساتذہ اور والدین کی جانب سے مقامی طالبان کے منتظمین سے اسکول کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دینے کے لیے ایک منفرد اور ٹھوس کوشش کی گئی۔
طالبان کے عہدیداروں نے لابنگ مہم کے بعد اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی باضابطہ طور پر کبھی منظوری نہیں دی، لیکن اکتوبر کے شروع میں جب اساتذہ اور والدین نے اپنے طور پر کلاسز شروع کیں تو انہوں نے اسے روکا بھی نہیں۔
ہرات میں اس کامیابی سے 1990 کی دہائی کی طالبان حکومت اور افغانستان پر طالبان کی موجودہ حکمرانی میں نمایاں فرق واضح ہوتا ہے۔
اُس وقت طالبان حکمران اپنے سخت گیر نظریے سے سمجھوتہ نہیں کر رہے تھے، خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی اور تمام لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو وحشیانہ سزائیں دیں۔ لیکن اس بار ان میں زبردست تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ کہ انہوں نے کچھ پرانے قوانین نافذ ضرور کیے ہیں لیکن اس بارے میں مبہم ہے کہ کس چیز کی اجازت ہے اور کیا نہیں۔
ابہام کا مقصد عوام کو الگ تھلگ کرنے سے بچنا ہو سکتا ہے کیونکہ طالبان مکمل طور پر معاشی تباہی، بین الاقوامی فنڈنگ میں بندش، ملک میں غذا کی کمی اور اسلامک اسٹیٹ گروپ کے عسکریت پسندوں کی طرف سے خطرناک جنگ لڑ رہے ہیں، جو اکثر عام لوگوں کو یا طالبان کو نشانہ بنا کر ملک میں دھماکے کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
جب اگست میں طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو زیادہ تر اسکول کووڈ 19 کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے۔
شدید بین الاقوامی دباؤ کے تحت، طالبان نے جلد ہی تمام سطحوں پر لڑکوں کے اسکولوں کے ساتھ، گریڈ 1-6 میں لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھول دیے۔ لیکن انہوں نے 7-12 گریڈ کی لڑکیوں کو اسکول واپس لوٹنے کی اجازت نہیں دی، طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کلاسز کا انعقاد "اسلامی طریقے سے" ہو۔
طالبان نے زیادہ تر خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے بھی روک دیا، جہاں انہیں سب سے زیادہ روزگار ملا ہوا تھا۔
تاہم صوبہ ہرات میں اساتذہ نے تیزی سے منظم ہونا شروع کر دیا۔ اساتذہ یونین کے عہدیداروں نے طالبان کے گورنر اور محکمہ تعلیم کے سربراہ سے ملاقات کی۔
جب اساتذہ نے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے کہا تو طالبان حکام نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ کابل میں حکومت کے حکم کے بغیر اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔
اساتذہ دباؤ ڈالتے رہے۔ صوبائی دارالحکومت ہرات میں تاجروباوائی گرلز اسکول (Tajrobawai Girls School in Herat) کی پرنسپل بصیرہ بصیر تخہ سمیت تقریباً 40 خواتین پرنسپلوں نے ستمبر میں طالبان کے اعلیٰ تعلیمی عہدیداروں سے ملاقات کی تاکہ ان کے اہم خدشات کو دور کیا جا سکے۔