امریکہ اور ترکی کے مابین تعلقات میں بہتری کی علامت کے طور پر، کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کو ہینڈل کرنے کے معاملے پر بات چیت کرنے کے لیے دونوں ممالک کے اعلی حکام جمعرات (24 جون) کو ملاقات کر سکتے ہیں۔ امریکی افواج 11 ستمبر 2021 افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائیں گی۔ ایسے میں
کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر اس کی دیکھ ریکھ اور سیکورٹی موضوع بحث ہے۔
کابل ایئر پورٹ کو جو چیز کافی اہم بناتی ہے وہ یہ ہے کہ چہار جانب سرحدوں سے گھرا ہوئے افغانستان میں انسانوں اور سامانوں کی نقل و حمل کے لیے کابل ایئرپورٹ ہی سپلائی کا سب سے اہم راستہ ہے۔ آس پاس کے علاقوں سے کابل تک بذریعہ روڈ کا راستہ خطے کی ساخت کی وجہ سے انتہائی دشوار کن ہے، اسی وجہ سے طالبان کو تازہ حملوں میں افغان حکومت پر غلبہ حاصل ہو رہا ہے۔
ترکی کے تقریباً 500 فوجی پہلے سے ہی کابل ایئرپورٹ پر غیر جنگی ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔ ترکی کے یہ فوجی 2001 میں افغانستان میں ناٹو افواج کے ساتھ غیر جنگی مشن کے تحت افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔
اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ترکی نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی میزبانی کی پیش کش بھی کی ہے، یہ دونوں باتیں دو الگ الگ اشارے کر رہی ہیں۔
ایک یہ کہ ترکی روسیوں سے ایس -400 دفاعی نظام کی خریداری کے ناٹو کے ساتھ بگڑتے تعلقات کے درمیان وہ اس کے ذریعہ نیٹو کے اہم اتحادی کی حیثیت سے اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن بعض دیگر امور کے تعلق سے بھی ترکی کو تنقید کا نشانہ بتاتے رہے ہیں۔ اگر ترکی کابل ایئرپورٹ کی نگرانی کا کام سنبھال لیتا ہے تو موجودہ ترک حکومت اتحاد میں اپنی اہمیت کو ثابت کیے بنا نیٹو میں اپنی پوزیشن اچھی بنا لے گی۔
دوسری بات یہ کہ مسلم دنیا کے روایتی لیڈر سعودی عرب کے امریکہ کے بہت قریب ہو جانے کے بعد، مسلمانوں کے درمیان اس کی قبولیت میں کمی آئی ہے۔ اس کے پیش نظر ترکی اس بات کا خواہش مند ہے کہ وہ اسلامی دنیا میں اپنا کھویا ہوا ممتاز مقام دوبارہ حاصل کرے۔ اسی لیے لیبیا میں فوجی اور سفارتی مداخلت اور ناگورنو-قرح باخ خطے پر آذربائیجان-آرمینیا کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ترکی اب افغانستان میں جاری طاقت کے کھیل میں اپنا قدم آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
لیکن اس حالیہ پیشرفت میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی نے ہنگری کے علاوہ پاکستان سے بھی فعال کردار اور تعاون کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
پچھلے ہفتے ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ میں نے (بائیڈن) کو پاکستان اور ہنگری کے ساتھ تعاون کے بارے میں اپنی رائے سے واقف کرایا۔ فی الوقت اس معاملے پر اتفاق رائے ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔