افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ھبۃ اللہ اخوندزادہ مبینہ طور پر اتوار کے روز افغانستان کے شہر قندھار میں منقعد ہونے والے عوامی اجتماع میں پہلی بار منظر عام پر آئے۔
طالبان حکام کے مطابق ملا ھبۃ اللہ اخوندزادہ نے قندھار میں واقع مدرسہ دارالعلوم حکیمہ کے اجتماع میں شرکت کی اور اپنے حامیوں سے ملاقات کی۔
طالبان عہدیداران کے مطابق ’انہوں نے دار الحکیمہ مدرسے کا دورہ کیا اور اپنے سپاہیوں اور شاگردوں سے خطاب کیا‘۔
اس تقریب کے لیے سیکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی تھی اور اس سلسلے میں کوئی تصویر یا ویڈیو بھی منظرِ عام پر نہیں آئی۔ تاہم، طالبان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی طرف سے دس منٹ کی آڈیو ریکارڈنگ شیئر کی گئی۔
مذکورہ ریکارڈنگ میں ملا ھبۃ اللہ اخوندزادہ جنہیں ’امیر المومنین‘ کہا جاتا ہے، نے سیاسی تنظیم کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی لیکن طالبان قیادت کے لیے اللہ سے دعا کی۔
علاوہ ازیں انہوں نے طالبان کے شہدا، زخمیوں اور اس ’بڑے امتحان‘ میں اسلامی امارات کی کامیابی کی بھی دعا کی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق اخوندزادہ واقعی افغانستان میں تھے اور وہ قندھار میں موجود ہیں۔ وہ شروع سے ہی وہاں رہ رہے ہیں۔
اگست کے وسط میں طالبان کے افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے وہ گوشہ نشین رہے ہیں اور سیاست سے گریز کر رہے تھے اور صرف مذہبی خطاب کر رہے تھے۔
ذرائع کے مطابق، ان کی گوشہ نشینی کے باعث طالبان حکومت میں ان کے کردار کے حوالے سے قیاس آرائیوں نے جنم لیا حتیٰ کہ ان موت کی افواہیں بھی پھیلیں۔
امریکی ڈرون حملے میں ان کے پیشرو ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد وہ 2016 سے طالبان کے رہنما ہیں۔
ان کا آخری پیغام 7 ستمبر کو جاری ہوا تھا جب انہوں نے کابل میں طالبان کی نئی مقررہ حکومت سے کہا تھا کہ وہ افغانستان پر حکومت کے دوران شرعی قانون کو بالاتر رکھیں۔