اشتہارات کے متعلق نئے احکامات جاری کرتے ہوئے طالبان Taliban On Advertisements نے کابل شہر میں اسٹور فرنٹ پر خواتین کی تصاویر کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے، جسے ایک ایسا اقدام سمجھا جا رہا ہے جو بین الاقوامی سطح پر طالبان کی شبیہہ کو مزید داغدار کر سکتا ہے۔
افغانستان کی مقامی میڈیا طلوع نیوز کے مطابق، کابل میونسپلٹی کے ترجمان، نعمت اللہ بارکزئی نے کہا کہ حکومت نے بلدیہ کے اہلکاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ کابل میں دکانوں اور کاروباری مراکز کے سائن بورڈز سے خواتین کی تمام تصاویر Remove Pictures of Women from Signboards ہٹا دیں۔
بارکزئی نے کہا، "حکومت کے فیصلے کی بنیاد پر اسلامی ضابطوں کے خلاف ہونے والی تصاویر کو بل بورڈز سے ہٹا دیا جائے گا۔"
طلوع نیوز کے مطابق، کابل میں بیوٹی سیلون کے مالکان نے امارت اسلامیہ کے فیصلے پر تنقید کی اور حکومت سے اپیل کہ ہے کہ وہ ان کے کاروبار پر پابندیاں عائد نہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبات کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت لیکن مخلوط تعلیم کی نہیں
ایک میک اپ آرٹسٹ شائستہ سیفی نے سات سال تک بیوٹی سیلون میں کام کیا ہے، انھوں نے کہا کہ وہ 10 افراد پر مشتمل اپنے ایک خاندان کی مالی مدد کر رہی ہیں۔
انہوں نے طلوع نیوز کو بتایا، "یہ خواتین کے کام پر پابندی عائد کرنا ہے۔ خدشہ ہے کہ وہ اگلے چند دنوں میں ہماری دکان کو بھی تالا لگا دیں گے۔"
افغانستان میں خواتین کے حقوق Women's rights in Afghanistan کی کارکن پروانہ نے کہا کہ خواتین کی تصاویر ہٹانے سے حکومت کو کیا فائدہ ہوگا؟
اس قسم کا اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی تنظیموں نے طالبان سے متعدد دفعہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کو نظر انداز نہ کریں اور خواتین کو معاشرے میں پسماندہ نہ کریں۔
وہیں ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، 2021 افغان خواتین کے لیے بدترین سال رہا ہے کیونکہ طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے خواتین کے مکمل آزادی کے حقوق کو سلب کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Taliban Supreme Leader on Women's Rights: عورت جائیداد نہیں ہے بلکہ قابل عزت اور ایک آزاد انسان ہیں
طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے 2021 کو خواتین کے لیے زیادہ تر افغانستان کی وجہ سے ایک بدقسمتی کا سال قرار دیا۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کے شعبے کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر، ہیتھر بار نے کہا کہ طالبان نے افغان خواتین کی ان کے حقوق تک رسائی کو روک دیا ہے۔
خواتین کے حقوق کی ایک ممتاز افغان کارکن محبوبہ سراج نے افغان خواتین کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا، "جب لڑکیوں اور خواتین سے تعلیم کا حق چھین لیا جاتا ہے، اور وہ اپنی سرگرمیاں کرنے سے قاصر ہوتی ہیں اور خواتین کے لیے ہر قسم کی رسائی پر پابندی لگا دی جاتی ہے، تو یہ ملک میں خواتین کے لیے بدترین صورت حال ہے،"۔
ان کے بقول ملک میں موجودہ بحران کی بڑی وجہ خواتین کا حکومتی امور سمیت معاشرے سے الگ تھلگ ہونا ہے۔
خواتین کے حقوق کی ایک کارکن، مدینہ دروازی نے کہا، "عالمی برادری کی خاموشی ایک وجہ ہے کہ خواتین کو بدترین حالات کا سامنا ہے۔" خواتین پر پابندیاں عائد کرنے پر امارت اسلامیہ کو افغانستان کے اندر اور باہر تنقید کا سامنا رہا ہے۔